فیس بک کی دنیا بھی عجیب و منفرد دنیا ہے۔ فیسبک پر بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں۔ اس دنیا کے تقاضے ہی کچھ عجیب و غریب ہیں۔ یہاں محلاتی سازشیں پریموٹ ہوتی ہیں۔ فیس بک پر تصوارتی دنیا کی حکومتیں بنائی بھی جاتی ہیں اور گرائی بھی جاتی ہیں۔
ادھر دنیا جہاں کو ورلڈ آرڈر دیا بھی جاتا ہے اور اس کی دھجیاں بکھیری بھی جاتی ہیں۔ یہاں مذاہب کی اشاعت و ترویج بھی ہوتی ہے اور بیخ کنی بھی۔ یہاں سخن سازی بھی ہوتی ہے اور سخن شکنی بھی اتنی ہی شدومد سے ہوتی ہے۔ ادھر قصیدہ گوئی بھی ہوتی ہے اور کردار کشی بھی۔
فیس بک پر مزاح کے ایسے لطیف نمونے بھی دریافت ہوتے ہیں کہ طبعیت ہشاش بشاش ہو جائے اور مزاح کے نام پر خشت باری بھی ایسی ہوتی ہے کہ روح اندر تک لہولہان ہو جاۓ !
اس دنیاء فیسبک میں آباد ہوۓ راقم کو بھی "عشرہ دراز” ہو گیا ہے اور اس دنیا کے حسن و قبح سب کا وقتاً فوقتاً نظارہ کیا ہے۔ بہت کچھ سیکھنے اور بہت کچھ سکھانے کا بھی موقع ملا۔ سکھانے کا موقع ایسے ملا کہ کچھ مہربان ایسے بھی تھے جنہوں نے ہماری غلطیوں سے سبق سیکھا۔ ہماری کوتاہ اندیشیوں اور حماقتوں سے سبق حاصل کیا اور یوں ہم بھی سکھانے والوں میں شامل رہے۔ جہاں تک رہی بات سیکھنے کی، تو ارباب دانش سے بھی سامنا ہوا اور عقل و دانش کے موتی سمیٹے۔ اربابِ حل و عقد سے بھی تصادم ہوا کہ زخمی روح اور سلگتے دماغ سے آئندہ کے لیے ایسے اصحاب سے میلوں دوری کا عہد کرتے ہوۓ بلاک کا بٹن دباتے رہے۔
فیس بک ایک لا منتہائی ہجوم ہے جس میں انسانی سروں کا ایک سمندر تا حد نظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان سروں میں کن کن خیالات کے "سر خراب” موجزن ہیں، ان کا اندازہ لگانے میں وقت لگتا ہے۔ کسی پیچ پر سینکڑوں لائک دیکھ کر آپ کو فیس بکی دانشور کی قابلیت و بصیرت کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ بہت ممکن ہے کہ یہاں لائک کا بٹن دبانے والے وہ منچلے ہوں جو جنسیات کے دلدادہ ہوں اور دماغوں میں شہوانی خیالات کی طلاطم خیز لہروں میں بہتے ہوئے وہ اس پیج تک آ پہنچے ہوں اور مزاج اور خواہش کے عین مطابق یہاں من پسند خیالات کا سمندر بہہ رہا ہو۔ دانش ور صاحب اپنی سفلانہ دانش سے خود بھی اشنان کر رہے ہوں اور دوسروں کو بھی غسل دانش سے بہرہ مند کر رہے ہوں۔
کچھ دانشور حضرات وہ بھی ہیں جن کی سیاسی بلوغت ابھی پروان بھی نا چڑھی تھی کہ انہوں نے عالمانہ لیکچر دینا شروع کر دیا اور شومئی قسمت کے ہم خیالوں کا تانتا بھی بندھ گیا۔ اب وہ اپنی سیاسی دانش کی کچی پکی ہانڈی لیے فیس بک کے بازار کے منجھے ہوئے دانش ور اور تجزیہ کار بن چکے ہیں۔ غرض ہر عقل کے دشمن کو یہاں اپنے دل کی گرم مسالے والی بھڑاس نکالنے کے لیے قائد میسر آ گیا۔ یوں وہ قائد میاں پرانے وقتوں کے واٹر کولر کے مشہور برانڈ ہی بن بیٹھے کہ نل کھولو اور اناپ شناپ سے لباب بھرے کولر سے سیراب ہو لو۔ ایسے کچھ اصحاب سینکڑوں مداحین کے جلو میں اپنا چورن بیچتے ہوئے، کانوں کے پردے چیرتی صدائیں لگاتے نظر آتے ہیں۔
ایک طبقہ ایسا بھی فیس بکی دانشوروں کا ہے جو مذہب بیزار خیالات کا اظہار بنا کسی تردد اور لگی لپٹی کے کرتے ہیں۔ یہ دانشور زیادہ تر اپنی فیک آئی ڈی سے محو تکلم ہوتے ہیں یا آئی ڈی تو اصل ہوتی ہے لیکن موصوف سات دور دیش پار کسی محفوظ، صحت افزا مقام سے زہر بھرے، پھن لہراتے مخاطب ہوتے ہیں اور انکے مجمع میں انکے ہم خیال بھی داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے ہیں۔ یا کم از کم وجدانہ کیفیت میں اثبات میں سر ہلا رہے ہوتے ہیں۔ کثیر تعداد میں وہ مرد فساد بھی ہوتے ہیں جو اپنے مذہبی عقائد کی چوکیداری کرتے ہوۓ لٹھ لہرا لہرا کر ماں بہن ایک کر رہے ہوتے ہیں۔
وہ دانشور بھی اپنی "مقدس مشنری” کاروائیوں میں خرگرم ہوتے ہیں جن کو مذہبی جنونیت اور سخت گیری سے شدید الرجی ہوتی ہے۔ وہ مذہبی اعتدال پسندی کی راہ ہموار کرنے کے لیے کسی نا کسی مذہبی تحریر میں سوچوں کا رخ موڑنے والے کسی نا کسی نکتہ کو یوں اجاگر کر دیتے ہیں کہ غیر محسوس طریقے سے قاری اسکا ہدف بنتا ہے، اور اپنی فکر کی تبدیلی کو محسوس کیے بغیر اس پیج کو آستانہ بناۓ فیض یابی کا شوق سمائے یہاں حاضری دیتا رہتا ہے اور یوں ایسے دانشور اپنی ادبی اور فکری مہارت سے اپنے پیج پر زایرین کا ہجوم لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور خوب لائک اور لو سائن تو حاصل کرتے ہی ہیں ساتھ پوسٹ کے زیریں حصے میں خوب سوالاتی اور تائیدی جملوں کا انبار لگا لیتے ہیں۔
ایسے بے شمار دانشوڑ "حسرات” بھی سوشل میڈیا کی دنیا کا لازم حصہ ہیں جو اپنی اداسی اور تنہائی کا تریاق اپنے فالوورز کے کمنٹس میں ڈھونڈتے ہیں۔ وہ خود پسندی کے مرض میں اس قدر مبتلا ہوتے ہیں کہ انکی زیادہ تر پوسٹس انکی رنگ برنگی تصاویر پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی کلوز اپ سیلفیاں اور مانگے تانگے کی دانش اپنی وال پر بکھیرتے رہتے ہیں۔
کئی خواتین و حضرات کو ایسے کاٹ دارجملے لکھنے میں خصوصی ملکہ حاصل ہوتا ہے کہ ادب و مزاح کے بے تاج بادشاہ بھی انکے متوقع پوٹینشل کو نظر انداز نہی کر سکتے۔ الفاظ کے حسن ترتیب سے بظاہر بے معنی سی بات کو بھاری بھرکم معنی سے لاد دیتے ہیں۔
سیاستدانوں کے منہ سے بے ساختہ نکلے ہوئے سیاسی بیانات کو کیچ کرنے والے دانشوروں کی بھی کمی نہیں جو ان کو مزاح کا رنگ و روغن کرنے کے بعد ایسا جاذب نظر بناتے ہیں کہ دن بھر کے بحث و تکرار سے تھکے ماندے بزنس مین ، بیویوں کے ستاۓ ہوۓ شوہر اور شوہروں سے خار کھائی بیویاں اور افسرانِ بالا کی جھاڑ پھٹکار کے مارے ہوۓ ملازمین یہاں اپنی اپنی فلاسفی اور علمیت کی یلغار کر کے کسی فاتح کی طرح گردن اکڑاۓ دیگر شرکا سے واہ واہ کی آس لگاۓ گھنٹوں فیس بک کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے رہتے ہیں۔
ایسے کئ مذہبی شخصیات کے پیچز بھی ہوتے ہیں جہاں متفقین مریدین کے درجۂ الفت تک پہنچے ہوتے ہیں۔ وہاں ایک سطحی سی بات پر بھی لبیک لبیک کی صدائیں بلند ہو رہی ہوتی ہیں۔ اختلافی بات کا مطلب توہین مذہب کے دائرے میں قدم رکھنے کے مترادف ہوتا ہے۔ ایسی مذموم حرکت کے مرتکب پر وہ سنگ پاشی ہوتی ہے کہ الاحفیظ الامان۔ یہاں یا تو آداب محفل ملحوظ خاطر رہیں یا پھر یہاں سے میلوں دوری ہی آپ کے حق میں بہتر ہے۔ اسکے علاوہ کسی اور آپشن کی سوچ بھی دماغ میں مت لائیے گا۔
کچھ لوگ چیتھڑوں سے امارت کے سفر پر گامزن ہوتے ہیں۔ وہ جب بھی کسی مہنگے ریسورنٹ پرکھانا کھائیں یا غلطی سے کسی فضائی سفر پر روانہ ہوں تو فیس بک پر اسکی اشاعت کو نہیں بھولتے۔ وہ پہلی فرصت میں اپنے دورے کی پبلک سٹی کرکے یار لوگوں پر "دورے” ڈالتے ہیں۔ چاہے باقی اہم ترین زمہ داریاں بھول جائیں۔
دانشوروں کی ایک قسم سیاست کی آڑ میں اپنی جھگڑالو اور کینہ پرور مزاج کی تشنگی دور کرنے کے لیے ہر وقت مخالفین کو چڑانے کے لیے انتہائی نازیبا اور غیر مہذب تصاویر و جملے لکھ کر انہیں لڑائی پراکساتے رہتے ہیں اور جب من پسند نتائج حاصل ہوتے ہیں تو دل کے نہاں خانوں میں چین ہی چین پاتے ہیں۔
کچھ دانشور محتاط طبع ہونے کے باعث زندگی کو محض بچ بچا کر انجوائے کرنے کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ شعر وشاعری و رومانوی گیتوں کو شیئر کرتے رہتے ہیں اور زائرین کی قلیل یا کثیر تعداد سے پریشان یا خوش نہی ہوتے بلکہ اطمینان قلب کے ساتھ لگی بندھی عادت کا تسلسل رکھتے ہیں۔
اور کچھ لوگ ان تمام اوصاف کا کچھ نا کچھ حصہ اپنی طبعیت میں رکھتے ہیں وہ گرگٹ کی طرح روز رنگ بدلتے ہیں ۔ کبھی کچھ کبھی کچھ یعنی فیس بک مختلف النوع دانشوران کا چوپال ہے جہاں ہر مزاج کا حامل اپنی استطاعت کے مطابق ذہنی خوراک حاصل و منتقل کرتا ہے۔