پاکستان میں گرمی اپنے زوروں پر تھی۔کہ اکتوبر میں موسم نے انگڑائی لی اور راتیں سہانی ہونا شروع ہو گئیں۔ اکتوبر نے خنکی نے راتیں تو سہانی کر دی۔ مگر یہ ماہ خود قیامت خیز ثابت ہوا۔ قیامت خیز یوں کہ 8 اکتوبر کو زوردار زلزلے کے جھٹکے نے پاکستان کے شمالی علاقوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ 7.6 کی شدت سے آنے والے اس زلزلے سے اسلام آباد، کشمیر اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں 86 ہزار لوگ ہلاک اور تیس لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔

8 اکتوبر 2005 کے زلزلہ متاثرین سے اظہار ہمدردی و یک جہتی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے آگاہی فراہم کرنے کے لیے پاکستان میں 8 اکتوبر کو قدرتی آفات سے بچاؤ اور آگاہی کا قومی دن منایا جاتا ہے۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے آج تک کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟ کیا صرف دن منا لینا کافی ہوتا ہے؟۔ جواب ہے ، بالکل بھی نہیں، پاکستان نے قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی بنانے کی کوشش تک نہیں کی۔ جس کی زندہ مثال 2022 کا حالیہ سیلاب ہے۔

آج بھی ملک پاکستان کے کئی علاقے سیلاب جیسی قدرتی آفت سے متاثر ہیں۔بلوچستان کے بتیس ، گلگت بلتستان کے چھ، پنجاب کے تین، خیبر پختونخوا کے سترہ اضلاع اس ہولناک آفت کا شکار ہوئے ہیں۔ جبکہ سندھ کو سیلاب نے جتنا تباہ کیا ہے۔ اس کا تو صحیح سے اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔

پاکستان میں شاید اب سیلاب ایک معمول بن چکا ہے۔ ہر چند برس کے بعد شدید بارشوں کے باعث سیلاب آتا ہے۔نشیبی اور کمزور انفراسٹرکچر والے علاقے زیر آب آ جاتے ہیں۔ کچی بستیوں کے نام و نشان تک باقی نہیں رہتے۔ لوگوں کے مویشی بھی یہ آفت ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ کئی انسانی جانیں پانی کی نذر ہوجاتی ہیں۔اور پھر ان غریبوں کے ساتھ ظلم یہ ہوتا ہے کہ حکومت ان کو پوچھتی تک نہیں ہے ۔

آج بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی امور میں ریاستی عمل داری آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مختلف فلاحی ادارے متاثرہ علاقوں کی مدد میں مصروف ہیں۔ ان ہی فلاحی ادارے میں سب سے نمایاں نام اور کام الخدمت فاؤنڈیشن کا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار جنوبی پنجاب ، گلگت، خیبرپختونخوا اور سندھ کے ان علاقوں تک پہنچے ، جہاں جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔

افسوس حکومت وقت نا تو متاثرین کے زخموں کا مرہم بنی اور نا ہی سیلاب سے بچاؤ کے لیے کوئی اقدام کر پائی۔ قدرتی آفات سے بچاؤ یا نمٹنے کے متعلق آگاہی پھیلانے سے ہزاروں قیمتی جانیں تو بچائی جاسکتی ہیں۔مگر کاش آگاہی پھیلانے کے لیے چند بینرز لگانے اور تقاریب منعقد کروانے کے علاؤہ کوئی عملی اقدام بھی کیا جاتا۔

Shares: