اسلام آباد:پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ربیع الاول اور ولادت نبی کریمﷺ ۖ کی مناسبت سے حضور ﷺۖ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے تمام مسلمانان عالم عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں، رواں سال وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ہدایت اور وزارت بین المذاہب ہم آہنگی کے تعاون سے (آج) اتوار کو بین الاقوامی سیرت کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کا موضوع ”اخلاق” مقرر کیا گیا ہے، کانفرنس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم محمد شہباز شریف خطاب کریں گے جبکہ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل الشیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی بطور مہمان خصوصی شرکت کریں گے۔
ہفتہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ سیاست کو دین کے تابع ہونا چاہئے نہ کہ دین سیاست کے تابع ہو۔ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم ۖ کو رحمت العالمین بنا کر بھیجا گیا وہ رحمت المسلمین نہیں تھے بلکہ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں، ہمیں حضور اکرم ۖ کی سیرت طیبہ پر عمل کرنا چاہئے، آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں ان سے نکلنے کا واحد راستہ نبی کریم ۖ کی سیرت پر عمل ہے۔ ہمیں سچ کو اپنا کر غیبت چھوڑنی چاہئے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک میں 70 فیصد علاقے میں سیلاب کے باعث لوگ پریشان ہیں، ہمیں قرآن و سنت اور حضور اکرم ۖ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے متاثرین سیلاب کی مدد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ امت مسلمہ کے اتحاد کی کوشش کی ہے اور بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں عالمی رابطہ اسلامی کے سیکرٹری جنرل الشیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کی شرکت پاکستان کی کاوشوں کی عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ان سے اپنی ملاقات کے دوران اسلامو فوبیا ، دہشتگردی سمیت عالمی برادری کو درپیش مسائل کے خاتمہ کیلئے ہر طرح کے تعاون کا اعادہ کیا ہے۔ حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ بھارتی حکومت غیر قانونی بھارتی جموں وکشمیر میں سیرت النبیۖ کے جلوسوں پر پابندیاں لگا رہی ہے عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے گزشتہ روز الزام لگایا ہے کہ بعض عناصر ان کو مذہب کے نام پر قتل کرانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا کسی عالمی دین نے ان کے قتل کا فتویٰ دیا ہے؟ عمران خان اس کا جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے مسجد نبویۖ کے واقع کے بعد پاکستان علما کونسل کے پاس بہت سی درخواستیں وصول ہوئیں لیکن علما کونسل نے ہمیشہ مفاہمت کی بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان دینی اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے گفتگو سے پہلے تحقیق کر لیا کریں تاکہ وہ مذہبی معاملات کو آپس میں گڈ مڈ نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا مذہب کے نام پر قتل کا الزام دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ دنیا میں بعض ممالک نے پہلے ہی پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی باتیں کی جاتی ہیں اور عمران خان کا بیان ان کو تقویت پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ اڑھائی سال کے دوران ملک بھر میں توہین رسالت یا توہین مذہب کے حوالے کوئی ناجائز ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ چیئرمین پاکستان علما کونسل نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ملک کے سابق وزیراعظم ہیں اور ملک دشمن عناصر انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان پر الزام تراشیاں کرتے ہیں اس لئے احتیاط کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہوں تو سامنے لائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت ملک میں جدوجہد کرتی رہی ہے اور نظام کی تبدیلی کی باتیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تیس پینتیس سال سے پاکستان کی سیاست میں مذہب اور اسلام کا نام لیا جاتا رہا ہے لیکن کسی سیاسی جماعت نے اپنی سیاست کو جہاد قرار نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے سیاست کو جہاد قرار دینا کسی صورت درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جہاد کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی بات کوئی مذہبی جماعت کرتی تو کیا اس کو بھی اتنی آزادی دی جاتی جتنی عمران خان کو دی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک اور لال مسجد والے اگر جہاد کے ذریعے تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو ان پر پابندیاں ہیں لیکن عمران خان کو چھٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صرف اقتدار میں واپس آنے کیلئے مذہب کا نام استعمال کر رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے عمران خان کئی مرتبہ کہا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے۔
حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ قوم بڑی مشکل سے انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نکل رہی ہے، اس لئے سیاست کو جہاد اور اسلام کا نام دینا درست نہیں ہے، آپ اپنی سیاست کریں، سیاسی اختلافات یا حمایت ہو سکتی ہے لیکن سیاست کو جہاد بنا کر پیش نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کل حضور پاکﷺ کی ولادت کے موقع پر قوم درود اور استغفار کی کثرت کرے اور دعا کرے کہ خداوند کریم ملک کے حالات بہتر کرے اور ہم کو مسائل سے نکال دیں۔ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کے حوالے سے دی جانے والی چھوٹ کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں محترم چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ ماضی میں ملک میں نظام کو جہاد کے نام پر تبدیل کرنے پر پابندیاں لگائی گئیں اور لوگوں کو جیل بھی بھیجا گیا لیکن اگر آج کوئی یہ بات کرتا ہے تو کیسے جائز ہے، اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی بات ماضی میں غلط تھی تو اب بھی ناجائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ خودکش حملے کرنے والے بھی سیاست کی بجائے جہاد کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں جو عمران خان کر رہا ہے۔ انہوں نے ارباب اختیار سے اپیل کی کہ دہشتگردی اورانتہا پسندی سے سب سے زیادہ دینی طبقہ متاثر ہوا ، اس لئے سیاست میں مذہب کے استعمال کا تدارک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ طاقت کے زور پر تبدیلی کا پی ٹی آئی کا نظریہ جائز نہیں ہے۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان صرف اور صرف اپنے اقتدار کی واپسی چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی گزشتہ حکومت میں نظام میں کیا تبدیلیاں کیں جو اب کریں گے۔ ماضی میں انہوں نے اگر کوئی تبدیلی کی ہو تو وہ بتائیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ سیاست کو دین کے تابع ہونا چاہئے لیکن یہاں دین کو سیاست کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ سیاست کا احترام اپنی جگہ اپنے مقاصد کیلئے مذہب کا استعمال درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان علما کونسل نے ہمیشہ ملک میں آئین اور دستور پر عمل کی حمایت کی ہے اور طاقت کے ذریعے تبدیلی کا تصور ختم ہونا چاہئے۔ عمران خان اگر نظام میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں تو سیاسی جدوجہد کریں، دین کو سیاست سے نہ جوڑیں۔