سائنسی طرزِ فکر!!! — ڈاکٹر حفیظ الحسن

0
122

سائنسی طرزِ فکر اپنائے بغیر سائنس نہیں سیکھی جا سکتی۔ سائنسی طرزِ فکر حقیقت پسندی کا نام ہے۔ ایک ان پڑھ بھی اگر حقیقت پسند ہو تو وہ ایک پی ایچ ڈی سے بہتر سائنس سیکھ سکتا ہے۔ حقیقت پسندی تب آتی ہے جب ہم کھوکھلے نعروں، فرسودہ علوم اور جذباتیت سے نکل کر وہ علم سیکھنے کی کوشش کریں جو جدید دنیا سیکھ رہی ہے۔

ہمیں اس خوش فہمی سے نکلنا ہو گا کہ کوئی دن رات ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے کہ ہمیں ناکام کرے۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ ہم کیا غلط کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ دنیا کیوں ہم سے ہر دوڑ میں آگے جا رہی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ اور کیا پرانی روایات، پرانے خیالات اور پرانے علوم ہمیں جدید دنیا میں آگے لے جا سکتے ہیں؟

کیا کھوکھلے نعرے لگانے والے ، رال ٹپکاتے، منہ سے جھاگ نکالتے اور عقل و خرد سے عاری داستانیں سنانے والے ہمیں کسی منزل تک پہنچا سکتے ہیں اور کیا انکی تقلید کرکے ہم قومی خود مختاری اور معاشی و معاشرتی ترقی کر سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو اب تک ایسا کیوں نہیں ہوا جبکہ پورے ملک میں ان سب کی بہتات ہے۔ گلی گلی، قریہ قریہ، محلے محلے، چینل چینل، سوشل میڈیا سوشل میڈیا انکی بہتات ہے۔ یہ لوگ دولو شاہ کے چوہے تو بنا سکتے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریاں اور بڑے بڑے عہدے لیکر بھی رہتے تو اکسیویں صدی میں ہیں مگر انکے دماغ کئی صدیاں پیچھے رہ رہے ہیں۔ غریب تو خیر روٹی کپڑے سے نکل کر جدید تعلیم کیا محض تعلیم ہی نہیں سیکھ سکتے، مڈل کلاس فرسودہ علوم پر استوار تعلیمی نظام اور مساوی نظامِ تعلیم میں پھنسے اور اسکے ڈسے ہیں اور اشرافیہ غریبوں اور مڈل کلاس کی جہالت کا فائدہ اُٹھاتی خود پست ذہنیت کی ہو چکی ہے۔

پاکستان میں اس وقت تقریباً دو سو کے قریب یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے اکثر پچھلے تیس سالوں میں بنی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں بیٹھی اکادیمیہ جن میں پروفیسر حضرات شامل ہیں کن جدید علوم اور کس سائنسی فکر سے طلباء کو پڑھاتے ہیں؟ یونیورسٹیوں میں میریٹ پر کون بیٹھا ہے؟ تحقیق کے نام پر فنڈنگ سے کونسے مقامی مسائل کا حل نکل رہا ہے؟ مقامی صنعتوں اور یونیورسٹیوں کا اشتراک جو جدید دنیا میں ترقی کا پیش خیمہ ہے وہ کہاں ہے؟

1964 میں حکومت کی ایک پوری وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے بنی تھی، اس وزارت کا کام ہر سال چاند کی رویت کے لیے بندے مار ٹیلی سکوپس حبیب بینک کراچی کی چھت یا سینٹارس پر کیے گئے رویت کے اجلاسوں میں چاند کو نکلوانے یا چھپوانے کے اور کیا ہے؟

ایسے معاشرے میں سائنس سکھانے سے پہلے کیا یہ ضروری نہیں کہ سائنسی طرزِ فکر سکھائی جائے۔ مچھلی پکڑا کر کھلانے سے کیا بہتر نہیں کہ مچھلی پکڑنا سکھائی جائے؟ چلیں اس پر ملکر سوچتے ہیں۔

Leave a reply