پاکستان کی سیاسی تاریخ بہت سے حوادث کی گواہ ہے جس میں اگر ہم صرف 1990 کی دھائی ہی دیکھ لیں تو پاکستان میں دو سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آئیں ،ایک مرکز میں حکمران تھی تو دوسری ایک صوبہ میں ، اگر صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ اسلام آباد کی جانب جاتا تو گرفتار ہو جاتا اور اگر مرکز ی حکومت کا کوئی نمائندہ صوبائی حکومت کی حدود میں نظر بھی آ جاتا تو اسکو گرفتار کر لیا جاتا۔ یہ بات ہو رہی ہے پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی اور انکی 1990 کی دھائی کی سیاست کی ۔۔۔

اب یہ ایسا کیوں تھا کیا اقتدار کی لالچ تھی یا پاور شئیرنگ کا مسلہ، اس سوال کا جواب آج تک راہ تک رہا ہے کیونکہ سیاسی پارٹیاں تو آج کے دن تک پاکستان میں درجنوں موجود ہیں لیکن سیاست بلخصوص 1990 کی دھائی کی سیاست کی چھاپ آج تک جوں کی توں موجود ہے۔۔۔

انتقام، انتقام اور بس انتقام۔۔۔ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کا بس یہی مطلب سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے خواہ 1990 کی دھائی کی سیاست کو دیکھ لیں یا 2022 کی موجودہ سیاست کو، ہمیں بس سیاسی مقدمہ بازی ہی نظر آتی ہے، شاید اسی لیے محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ نے کہا تھا کہ

"جمہوریت بہترین انتقام ہے”۔۔۔

آج کی تاریخ میں اگر 1990کی دھائی کی سیاست کی مثال سمجھنی ہو تو اپریل 2022 سے آج کے دن تک وفاق اور صوبوں کی سطح پر مختلف واقعات پر نظر دوڑا لیں۔ تازہ مثال ملک کےوزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے خلاف ایک صوبہ، پنجاب جہاں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے آجکل انتظامی طور پر بہت متحرک نظر آرہا ہے لیکن یہاں سوال نہیں بلکہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا یہ بھی 1990 کی دھائی کی سیاست کا ہی تسلسل تو نہیں؟

کیا پاکستان کی عوام اسی طرح سیاسی پارٹیوں کا دنگل اور نورا کشتی دیکھتی رہے گی؟

کب تک ھم 1990 کی دھائی کی سیاست کے چکر ویو میں پھنسے رہیں گے؟

لگتا تھا کہ خان صاحب اپنے بلند بانگ دعووں کو تکمیل تک پہنچائیں گے اور پاکستان میں رائج 1990 کی دھائی کی سیاست و جمہوریت کا بدنما داغ دھوئیں گے لیکن ہوا اسکے متضاد مطلب خان صاحب بھی 1990 کی دھائی کی سیاست کے رنگ میں رنگے گئے جس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ خان صاحب جن کو اپنا اور ملک و قوم کا دشمن سمجھتے اور کہتے تھے انہی کے نقشِ قدم پر چل کر انہیں استاد مان چکے ہیں؟

خیر ہم تو عوام ہیں جو اونٹ پر نظریں گڑائے بیٹھے ہیں کہ یہ موا کس کروٹ بیٹھے گا؟

Shares: