انسان کو خوشی ملتی یے تو دماغ سے ڈوپامائن نامی ہارمون ریلیز ہوتا ہے ۔ لذت کا یہ احساس انسان سے تقاضا کرتا ہے کہ یہ کام دوبارہ کیا جائے تاکہ مزید لذت محسوس ہو ۔ یا اس جیسا کام بار بار کیا جائے ۔ اس کو ایک مثال سے سمجھ لینا چاہیے ۔ پارک میں جانے کے لیے بچے جوشیلے ہوتے ہیں ۔ واپسی پر وہی بچے انتہائی سست دکھائی دیتے ہیں ۔ ڈوپامائن اپنے پیک پر جانے کے بعد جب واپس ہوتا ہے تو انسان جتنا جوشیلا ہوتا ہے پھر اتنا ہی شکست خوردہ دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا نفس تقاضا کرتا یے کہ یہ کام دوبارہ کیا جائے لیکن کام گراں و ثقیل ہونے کی وجہ سے نئی ہوپاتا ۔
اب جب یہی خصوصیات رکھنے والا انسان موبائل پکڑتا ہے تو رنگا رنگ دنیا دیکھتا ہے ۔ کہیں ایڈوانچر کہیں کامیڈی کہیں ٹریجڈی کہیں ایموشنل ڈرامہ کہیں میسٹری کہیں رومانس کہیں تھرلر کانٹینٹ اور کہیں سیاحت پر مبنی مواد ہوتا ہے ۔
ایک کے بعد ایک انسان من کی خواہش پورا کرنے کے لیے لگا رہتا ہے ۔ ڈوپامائن ریلیز ہوتا جارہا ہے ۔
آہستہ آہستہ نفس بڑے سے بڑے عمدہ و تھرلر کی ڈیمانڈ کررہا ہے ۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب سب کچھ بورنگ محسوس ہونے لگتا ہے ۔
ڈوپامائن پیک پر ہونے کے بعد واپس ہورہا ہے اور انسان کو جوشیلے پن سے دگنی سستی و اکتاہٹ مل رہی ہے ۔
یہ اکتاہٹ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی انسان کو اپنی ذمہ داریاں زہر محسوس ہونے لگتی ہیں ۔ پڑھنا ، کام کرنا اور ذمہ داری پوری کرنا اسے پہاڑ محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اور پھر وہ کوئی بھی بامعنی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا ۔
موبائل میں اگرچہ مفید و با معنی ایکٹیویٹیز بھی ہوتی ہیں لیکن نفس کو اس مفاد سے کوئی غرض نہیں اسے وحشیانہ پن اور لہو و لعب درکار ہے ۔ انسان اپنے آپ سے وعدہ کرتا ہے اب ان فضول سرگرمیوں سے جان چھڑا کر بامعنی کام کرنا ہے لیکن اگلے دن گدھا وہیں پر کھڑا ہوتا ہے جہاں کل تھا ۔
سوشل میڈیا و موبائل کا ناسور انسان کے لیے اس قدر مصیبت بن چکا ہے کہ اس سے جان چھڑانا لگ بھگ ناممکن ہوگیا ہے ۔ اس ساری سائیکلنگ کو سمجھنے کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ آج کا انسان بری طرح پھنس چکا ہے ۔