سوشل میڈیا کے دور میں نوجوانوں کی دلچسپیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ ویسے بھی عمر کے ہر مرحلے میں انسان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں ۔ نوجوانی انسانی عمر کا جوشیلا عرصہ ہے ۔ ذرا ذرا سی بات پر بڑھک جانا ، بھر جانا ، مار دینا ، مرجانا اس عمر کی خصوصیات کے طور پر اکثریت میں دیکھا جاسکتا ہے ۔

نوجوان گرم خون میں اسلحے کی نمائش کرتے ہیں ، اسلحہ بڑے شوق سے خریدتے ہیں پھر اس اسلحے کے استعمال کا کیڑا بھی ستاتا رہتا ہے اور وہ ہوائی فائر کرکے من کی آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خاندان میں نوجوانوں کا گروہ متحرک ہوتا ہے اور ہر وقت لڑائی پر آمادہ رہتا ہے اس غرض سے انہوں نے سپیشل ڈنڈے ، سوٹے ، سنگل ، نیزے ، چھرے اور طرح طرح کے خونی و باردونی ہتھیار جمع کیے ہوتے ہیں ۔

لڑائی و مخاصمے کی فطرت ان میں اتنی شدید ہوتی ہے کہ ملکی قوانین نہ صرف بے اثر ہوجاتے ہیں بلکہ بے بس بھی ہوجاتے ہیں ۔

انسانیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ فطرت کو دبانے کی بجائے فطرت کے اظہار کے جائز اسباب مہیا ہونے چاہئیں ۔ مثلا شہوانی جذبات ہیں تو زنا کا راستہ بند کرنے کے ساتھ شادی کو آسان بناو ۔

دنیا سے الگ تھلگ ہونے کے جذبات ہیں تو راہبانہ زندگی پر انسداد کی مہر لگانے کے ساتھ زہد و تقوی کا راستہ دکھایا جائے ۔ اسی طرح مخاصمہ و لڑائی کے جذبات جوانی میں سکون سے نہ بیٹھنے دیں تو اس کا حل یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو سمت دکھاو ۔ ان کو بتاو کہ آپس میں جن بھائیوں پر تم اپنی بدمعاشی جھاڑ رہے ہو یہ اصل مقام نہیں ہے ۔

بلکہ اصل مقام یہ ہے کہ ظلم و ستم کو روکنے کے لیے اپنی جھگڑالو فطرت کی تسکین کرو ۔ اعلائے کلمہ اللہ کے راستوں کی رکاوٹوں کو ختم کرنے میں اپنا بڑھک پن دکھاو ۔ دین کی سر بلندی کے لیے اس اسلحہ و ہتھیار کی نمائش کرو ۔

یہی دین اسلام نے راستہ بتایا ہے ۔ اور دین اسلام کی یہی تو خاصیت ہے کہ فطرت والا دین ہونے کے باعث یہ فطرت کو دباتا نہیں بلکہ فطرت کے اظہار کی راہیں ہموار کرتا ہے ۔

Shares: