پاکستان کی بنیادوں میں ایک بڑے مذہبی طبقے کا خون پسینہ موجود ہے تاریخ کے اُس موڑ پر جب بتوں کو پوجنے اور ایک اللہ کی عبادت کرنے والوں کے درمیان ایک بَرّی لکیر کھینچی گئی کہ جس کی زد میں آ کر بوڑھوں، بچوں،خواتین اور نوجوانوں نے ملک و قوم کے ایمان کی سلامتی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا یہ قربانیاں کہنے کو تو نا قابلِ فراموش ہیں مگر حقیقت ہے کہ انہیں بتدریج فراموش کیا جاتا رہا ہے ملک کو حاصل کرنے کے بنیادی نظریات، دینی اخلاقیات، قومی و ملی جذبات جب اگلی نسل میں منتقل ہوئے تو ان کی حدت ماند پڑ گئی، یہ نسل اسلام اور پاکستان کی اس حد تک اہمیت کو نہ سمجھ سکی کہ جس قدر اس سرزمین کو حاصل کرنے والے جانتے تھے یوں ہی یہ دوسری نسل بھی اب بزرگ یعنی با اثر ہوگئی۔

کوئی اگر اپنے خاندان کا بزرگ ہے تو اس کی قائم کی گئی روایات اس کے مختصر خاندان پر لاگو ہو جاتی ہیں، کوئی علاقے اور برادری کی بااثر شخصیت ہے تو وہ اپنے رسوم و رواج کا اطلاق اپنے اس حلقے پر کرتا ہے، کسی بھی خاندان، حلقے، سرکاری و غیر سرکاری ادارے کے سربراہ کی بات بھی اس کی شخصیت کی طرح با اثر ہوتی ہے خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو! بقول واصف علی واصف “پیغمبر کی بات باتوں کی پیغمبر جبکہ بادشاہ کی غلطی غلطیوں کی بادشاہ ہوتی ہے” لہٰذا خاندان کے سربراہ کا تربیت یافتہ ہونا ایک پورے خاندان کے تربیت یافتہ ہوجانے کی نوید سناتا ہے۔۔ مگر افسوس کہ پاکستان میں دینی رجحانات کے حاملین ناپید ہوتے جا رہے ہیں جبکہ شرعی حدود پھلانکنے اور ہندوانہ رسمیں عام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ مثلاً شادی بیاہ کے مواقع پر ہندوانہ روایات کا اہتمام، یا پڑھے لکھے حلقے میں تلاوت نعت سے شروع ہونے والی تقاریب میں ناچ گانے، سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں سرِ عام رشوت وغیرہ ان شرعی جرائم کے چند بنیادی اجزاء میں شامل ہوتے ہیں۔

اگر وقت یوں ہی گزرتا رہا اور کوئی راہنما شخصیت یا ادارہ ان با اثر سمجھی جانے والی شخصیات کی تربیت کے لیے نہ متحرک ہوا تو کہیں حقیقی با اثر شخصیات کی سخت گرفت نہ ہو جائے! ایسے افراد اور ادارے وقت کی اہم ضرورت ہیں کہ جو بزنس کلاس، اعلیٰ تعلیم یافتہ کلاس، چھوٹے بڑے سرکاری افسران اور خاندان کے بڑوں تک رسائی حاصل کر کے انہیں دینی تعلیمات و احکامات سے آگاہ کریں۔ اگرچہ ہم اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو ہمیں چند ایک گِنے چُنے دینی ادارے نظر آتے ہیں کہ جو دینی تعلیمات عوام الناس تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ایسے حالات میں عام نوجوانوں اور افسران بالا کی دینی تربیت کرنے والے اداروں کی اشد ضرورت ہے،

Shares: