قرآن شریف میں کچھ آیات بندے کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں. جیسے سورۃ القمر آیت نمبر 48 میں قرآن کہتا ہے.

يَوۡمَ يُسۡحَبُوۡنَ فِى النَّارِ عَلٰى وُجُوۡهِهِمۡؕ ذُوۡقُوۡا مَسَّ سَقَرَ ۞
ترجمہ: جس دن ان کو منہ کے بل آگ میں گھسیٹا جائے گا (اس دن انہیں ہوش آئے گا، اور ان سے کہا جائے گا کہ) چکھو دوزخ کے چھونے کا مزہ۔

کچھ باتیں ہمیں اپنی عادات کی وجہ سے سمجھ نہیں آتیں. جیسے اپنے قدموں پر کھڑے زمین کی کشش ثقل آپ کو کہاں محسوس ہوگی؟ لیکن آپ الٹے سر کے بل کھڑے ہوجائیں آپ کو کچھ ہی دیر میں ثقل یعنی gravity اپنی پوری تفصیل اور ترتیب سے سمجھ آجاتی ہے. بدن کا خون جب سر کی طرف آتا محسوس ہوتا ہے تب آپ حیرت سے سوچتے ہیں قدموں کی طرف بہتا تو یہ کبھی محسوس نہیں ہوا.؟

پھر ہم سیدھے ہو جاتے ہیں اور اپنے قدموں پر واپس جب کھڑے ہوتے ہی جسم ایک سکون کی کیفیت میں جا کر بتاتا ہے اب تم انسان بن گئے ہو. اللہ رب العزت نے اس دنیا کو ہمارا امتحان بنایا ہے. اپنی روزمرہ زندگی میں مگن ہماری کچھ عادتیں ہمیں دھوکے میں رکھتی ہیں. جیسے غرور و تکبر ہو. یہ بندے کو سجتا ہی نہیں کیونکہ بندگی انکساری میں ہے یعنی زمین سے نظریں اور قدم جوڑ کر رکھنے میں ہے. جبکہ تکبر آپ کو سر کے بل کھڑا کرا دیتا ہے.

اس لئے بڑے بزرگ کہتے ہیں غرور کا سر نیچا ہوتا ہے. کامیاب پھر وہی ہے جو جانے سے پہلے جیتے جی بندگی کا راز جان لے. بندگی ان سجدوں میں ہے جو زمین پر چلنے کا سلیقہ اور انکساری دے کر جائے. سر کے بل کھڑے لوگ پھر منہ کے بل گھسیٹے جاتے ہیں.

Shares: