ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

فیض نے اپنی مشہور نظم ’ہم دیکھیں گے‘ 1979 میں لکھی تھی۔ اس وقت انھوں نے یہ نظم پاکستان کے آمر جنرل ضیاء الحق کے خلاف لکھی تھی۔

20 نومبر 1984 فیض اس دنیا کو الوداع کہہ گئے اور 1985 میں لاہور کے الحمرہ آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں گلوکارہ اقبال بانو (2009-1935) نے اس نظم کو گا کر اسے امر کر دیا۔ اقبال بانو دلی میں پیدا ہوئی تھیں اور انھوں نے اپنا بچپن روہتک میں گذارا۔ 17 سال کی عمر میں وہ پاکستان منتقل ہو گئیں

یہ 1985 کی بات ہے جنرل ضیاء الحق نے غیر اعلانیہ طور پہ ٹی وی اور ریڈیو پر فیض احمد فیض اور ان کے کام پر پابندی لگا رکھی تھی . جنرل ضیاء الحق کے پاکستان میں نہ صرف فیض احمد فیض بلکہ ساڑھی پہننے پر بھی پابندی تھی- ایسے میں الحمرا ہال لاہور میں 13 فروری 1985 کو فیض احمد فیض کی سالگرہ پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں اقبال بانو نے انتظامیہ کی ہدایت کے برخلاف سلک کی ساڑھی پہن رکھی تھی یہ گیت گایا تھا
” ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے”

ہجوم تھا کہ ہال کے باہر تک جمع تھا . مجبوراً دروازے کھلے رکھنے پڑے . ہجوم کے اصرار پر لاؤوڈ سپیکر باہر بھی رکھنے پڑے جیسے ہی اقبال بانو نے گیت شروع کیا لوگوں نے اس کے ساتھ گانا شروع کر دیا لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر پولیس نے ہال کی بتیاں بجھا دی لیکن پورے لاہور نے یہ گیت گایا –

اس گیت کی کوئی ویڈیو موجود نہیں ہے۔ آڈیو میں آپ کو لوگوں کا جوش اور ولولہ صاف سنائی دے گا -اس پروگرام کی ریکارڈنگ پاکستان سے سمگل کی گئی اور پھر دنیا تک یہ نظم پہنچی۔گیت کی آڈیو کا لنک پہلے کمنٹ میں موجود ہے

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

Shares: