علی ظفر جنسی حراسانی کیس؛ عدالت نے میشاء شفیع کو بذریعہ ویڈیو لنک جرح کی اجازت دے دی

0
48

علی ظفر کے خلاف جنسی حراسانی کیس میں عدالت نے میشاء شفیع کو بذریعہ ویڈیو لنک جرح کی اجازت دے دی۔

گلوکارہ میشا شفیع نے جنسی ہراسانی کیس میں کینیڈا میں مقیم ہونے پر سپریم کورٹ سے بذریعہ وڈیو لنک جرح کی اجازت کی درخواست دائر کی تھی۔ جس پر سپریم کورٹ نے میشا شفیع کی درخواست منظور کر کے گلوکارہ کو کینیڈا سے بذریعہ ویڈیو لنک جرح کی اجازت دیتے ہوئے تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ میشا شفیع 2016 سے کینیڈا میں مقیم، دو بچوں کی والدہ ہیں، میشا شفیع کو محض ایک بیان ریکارڈنگ کے لیے پاکستان آنے کی ضرورت نہیں۔ سپریم کورٹ نے حکمنامے میں کہا کہ میشا شفیع جنسی ہراسانی کیس میں ان کا بیان اہمیت کا حامل ہے عدالت میں بیان ریکارڈنگ کے لیے ورچوئل موجودگی بھی کافی ہے یہ بہترین وقت ہے کہ عدالتوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہو۔

سپریم کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ میشا شفیع کو جرح کے لیے کینیڈا میں پاکستانی ایمبیسی جانے کی بھی ضرورت نہیں پچھلے 8 ماہ سے میشا شفیع سے جرح ہو رہی ہے، بدقسمتی سے جرح میں تاخیری حربوں سے متاثرہ فریق پر دباؤ ڈال کر بیان بدلوانے کی کوشش کی جاتی ہے، جرح کے دوران جج کو خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ جج اگر محسوس کرے کہ جرح کا حق غلط استعمال ہو رہا ہے تو اسے مداخلت کرنی چاہئے۔

یاد رہے کہ علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کا کیس اس وقت دائر کیا تھا جب اپریل 2018 میں گلوکارہ نے ان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا، جنہیں علی ظفر نے مسترد کردیا تھا۔ خیال رہے کہ اسی کیس میں میشا شفیع کی والدہ اداکارہ صبا حمید نے اکتوبر 2019 میں بیان قلم بند کرواتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ علی ظفر نے نہ صرف ان کی بیٹی بلکہ دیگر خواتین کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا

میشا شفیع کی جانب سے سنہ 2019 میں علی ظفر کے خلاف لاہور کی سیشن کورٹ میں ہتک عزت کا دو ارب روپے کا دعویٰ دائر کیا گیا تھا جسے فروری 2020 میں مسترد کر دیا گیا تھا۔ میشا شفیع کی قانونی ٹیم کی رکن نگہت داد کے مطابق اس کیس کو سیشن کورٹ نے اس لیے مسترد کیا تھا کیونکہ علی ظفر کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے جانب سے پہلے دائر کردہ کیس اور یہ کیس ایک ہی نوعیت کا ہے۔

یاد رہے کہ 18 اپریل 2018 کو پاکستان کی مقبول گلوکارہ، اداکارہ اور ماڈل میشا شفیع نے اپنی ایک ٹویٹ میں گلوکار اور اداکار علی ظفر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ یہ پوسٹ اس وقت کی گئی جب دنیا بھر میں ‘می ٹو’ کی مہم اپنے عروج پر تھی جس کے تحت خواتین خود کو مبینہ طور پر جنسی ہراساں کرنے والے افراد کے خلاف آواز اٹھا رہی تھیں۔ نگہت داد کے مطابق میشا شفیع کی جانب سے علی ظفر پر ہتکِ عزت کا دعویٰ اس لیے کیا گیا ‘کیونکہ جب میشا نے علی کے خلاف ہراساں کیے جانے پر قانونی راستہ اختیار کیا تو انھوں نے مختلف انٹرویو اور اپنے بیانات میں میشا کے خلاف باتیں کیں جس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
انھوں نے اس بارے میں مزید بتایا کہ ‘دیگر الزامات کے علاوہ علی نے میشا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ یہ سب اس لیے کر رہی ہیں کیونکہ وہ کینیڈا کی شہریت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
دونوں گلوکاروں کے درمیان قانونی جنگ سال 2018 سے جاری ہے اور اس کا آغاز میشا شفیع کی جانب سے ایک ٹویٹ میں علی ظفر پر انھیں ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

میشا شفیع نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ‘اس طرح کھل کر بات کرنا آسان نہیں ہے، لیکن خاموش رہنا اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ میرا ضمیر مجھے اب مزید اس کی اجازت نہیں دیتا۔ میری ہی صنعت میں میرے ساتھ کام کرنے والے ایک ساتھی نے مجھے ایک سے زیادہ بار جنسی طور پر ہراساں کیا ہے: علی ظفر نے۔ ‘یہ سب تب نہیں ہوا جب میں چھوٹی تھی یا صنعت میں نئی تھی۔ یہ میرے ایک پراعتماد، کامیاب، اور چپ نہ رہنے والی عورت ہونے کے باوجود ہوا۔ یہ میرے ساتھ دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود ہوا۔
تاہم یہاں یہ سمجھنا بھی اہم ہے کہ اس وقت میشا شفیع اور علی ظفر کے مابین چار کیسز چل رہے ہیں، جس میں سے دو مقدمات علی ظفر نے دائر کیے ہیں اور دو مقدمات میشا شفی نے۔

اس ضمن میں پہلا مقدمہ علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع پر ہتکِ عزت کا دائر کیا گیا۔ علی ظفر نے جون 2018 میں لاہور کی سیشن عدالت میں میشا کے خلاف ہتک عزت آرڈیننس 2002 کے تحت دعویٰ دائر کر تھا۔ اس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میشا شفیع نے جھوٹے الزامات کے ذریعے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے بعد میشا شفیع نے ہراساں کیے جانے کے حوالے سے علی ظفر کے خلاف صوبائی محتسب کے پاس شکایت درج کروائی تھی، جسے محتسب کی جانب سے مسترد کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد یہی درخواست گورنر پنجاب کے پاس گئی اور اسے وہاں سے بھی مسترد کر دیا گیا۔

میشا نے محتسب اور گورنر کی جانب سے اپنی شکایت کو مسترد کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف پنجاب پروٹیکشن برائے خواتین ایکٹ2012 کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد اکتوبر 2019 میں ان کی اپیل کو وہاں سے اس بنیاد پر خارج کر دیا گیا کہ میشا شفیع اور کمپنی کے مابین معاہدہ خدمات کی فراہمی کے لیے کیا گیا تھا اور اس کی ایک شق کے مطابق فریقین کے درمیان تعلقات کو ملازمت تصور نہیں کیا جائے گااس کے بعد میشا کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں کی گئی ہے اور پچھلے ایک سال سے اس کیس پر کوئی سماعت نہیں ہوئی۔

Leave a reply