علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبالؒ کے آبا و اجداد جنوبی کشمیر ضلع کولگام کے سوپٹ نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ان کے والد شیخ نور محمد کشمیری تھے۔ علامہ خود کہتے تھے کہ وہ کشمیری ہیں۔ وہ کشمیری زبان میں بات بھی کرتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار علامہ کے کشمیری خادم نے بھی ایک مقامی روز نامہ میں شائع انٹرویو میں کیا تھا۔ آغا اشرف علی اور محمد یوسف ٹینگ نے بھی ان خیالات کی تصدیق کی ہے۔

علامہ اقبال کے استاد سید میر حسن کے متعلق بھی کہا جاتا ہے وہ کشمیری نژاد تھے۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے پردادا شیخ جمال الدین کے چار صاحبزادے شیخ عبدالرحمان، شیخ محمد رمضان، شیخ محمد رفیق اور شیخ محمد عبداللہ کشمیر کے ابتر معاشی صورتحال سے مجبور ہو کر اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں کشمیر سے ہجرت کرکے اور سیالکوٹ، پنجاب میں آباد ہو گئے۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے والد شیخ نور محمد، شیخ محمد رفیق کے بیٹے تھے۔

ڈاکٹر شیخ محمد اقبال جب سیالکوٹ سے لاہور پہنچے تو یہاں پر اُنہوں نے کشمیریوں کی قائم کردہ تنظیم ’انجمن کشمیری مسلمانان‘ میں شمولیت اختیار کی اور اس نوعیت تک اس کے سرگرم ممبر بنے کہ اُنہیں تنظیم کے ذمہ داروں نے اس کشمیری انجمن کا سیکرٹری جنرل بنا دیا۔ محمد اقبال کشمیر، پنجاب اور ہندوستان بھر میں کشمیریوں کی حالتِ زار پر رنجیدہ ہوتے اور اسے بہتر بنانے کے لئے کوششیں کرتے رہے۔ جوانی ہی میں آپ کا یہ مطالبہ تھا کہ مہاجر کشمیریوں کو ریاست کے حکمران اپنے گھروں کو واپس آنے دیں۔ اُنہیں کشمیر میں آباد ہونے اور اپنی املاک کے خود مالک ہونے کا حق دیاجائے۔ اُن کی کشمیر سے والہانہ محبت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایک موقع پر اُنہوں نے فرمایا:

سامنے ایسے، گلستاں کے کبھی گھر نکلے
حبیب خلوت سے ، سرِطور نہ باہر نکلے

ہے جو ہر لحظہ تجلی گر مولائے خلیل
عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے

اس بات میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حکیم الامت محمد اقبالؒ کو کشمیر سے روحانی، جذباتی اور بے پناہ قلبی محبت تھی جس کا اظہار اُنہوں نے اپنے کلام، مضامین، خطوط اور عمل سے کئی موقعوں پر کیا ہے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ کو اپنے بزرگوں کے کشمیر کنکشن پر بہت ناز تھا۔ اُن کی رگوں میں دوڑنے والا لہو کشمیر کے شفق فام چناروں کی طرح سرخ تھا۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

تنم گلے زِ خیابانِ جنت کشمیر
دلم از حریم حجاز و نواز شیراز است
(یعنی میرا جسم کشمیر کے چمن کا ایک پھول ہے اور میرا دل ارضِ مکہ و مدینہ اور میری صدا شیراز سے ہے‘)۔

کشمیر سے آبائی تعلق رکھنے کے باوجود اُنہیں اس امر کا بھی گہرا احساس تھا کہ وہ اِس وادیٔ جنت نظیر کا مشاہدہ بچشم خود نہیں کرسکے۔ اسی احساسِ نے انہیں یہ اشعار کہنے پر مجبور کیا:

کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے
اِس باغ جاں فزا کا یہ بلبل اسیر ہے

ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے

موتی عدن سے، لعل ہوا یمن سے دور
یا نافہ غزال ہوا ختن سے دور

ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر
بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دُور

حضرت علامہؒ 1921ء میں کشمیر تشریف لائے۔ مہاراجہ پرتاب سنگھ ان کی میزبانی کے خواہش مند تھے لیکن اُنہوں نے مہاراجہ کی میزبانی سے معذرت ظاہر کی۔ انہوں نے وادی جنت نظیر کے مختلف شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کی سیاحت کی۔ وہ وادئ کشمیر کے قدرتی حسن سے محظوظ ہوئے۔ انہوں نے اس دوران اپنی آنکھوں سے کشمیریوں کی ناگفتہ بہ صورت حال کا بھر پور جائزہ لیا۔

یہاں پر یہ بات اہم ہے جموں و کشمیر میں سیاسی سعی وجہد کا آغاز 1931ء میں شروع ہو چکا تھی۔ اُنہوں نے اپنی شاعری میں کشمیریوں کی بے بسی دور کرنے کا پیغام دیا۔ اُن کے دل کے آتش دان میں استقلال کی چنگاریوں کو اپنے گرم جذبات سے مزید حرارت بخشی۔ علامہ اقبال نے اپنے فرزند جاوید اقبال کے نام نصیحت نامہ کی صورت میں اپنی مشہور کتاب "جاوید نامہ” تصنیف کی ہے ۔ اصل میں یہ پوری کتاب کشمیریوں میں جاگرتی کا پیغام دیتی ہے۔ سر محمد اقبال نے اس طویل مثنوی میں کشمیر پر ایک پورا باب لکھا ہے۔ اس شعری مجموعہ میں محمد اقبال عالمِ تخیلات میں کشمیر کے عظیم اولیاء، صوفیاء اور بزرگ شاعروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اپنی اس تخیلاتی ملاقات کے دوران محمد اقبال کشمیر میں بانیِ اسلام میر سید علی ہمدانیؒ سے بھی ملاقات کرتے ہیں۔ وہ اُن کے حضور اپنی یہ شکایت رکھتے ہیں: ’آپ کے ماننے والے آج سخت آزمائش میں مبتلا ہیں۔ آپ نظرِ کرم فرمائیں، ہماری شکایت پر توجہ دیں ، ہمیں فرمائے کہ آپ کی مدد کب پہنچے گی’۔

جاوید نامہ میں وہ فارسی زبان کے ایک عظیم صوفی شاعر غنیؒ کاشمیری سے بھی عالم تخیل میں باتیں کرتے ہیں۔ یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کہی جاسکتی ہے کہ محمد اقبال کے قلب و قلم میں کشمیر رچا بسا تھا۔ 1939ء میں علامہ اقبال سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ اس عالمِ بقا کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے بھی وہ کشمیریوں کے حوصلوں کو جلا بخشتے رہے۔ انہوں نے انہی دنوں یہ دعا کی تھی:
توڑ اس دست ز جفا کیش کو یارب جس نےروحِ آزادیِ کشمیرکو پامال کیا

علامہ کو دُکھ تھا کہ انگریزوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ سے 75 لاکھ نانک شاہی سکوں کا سودا کرکے پوری ریاست اس کے حوالے کی۔ علامہ اقبال نے1931ء میں کشمیریوں کی سیاسی مساعی کو منزل آشنا کرنے کے لئے ‘آل انڈیا کشمیر کمیٹی’ بھی بنائی۔ بعدازاں انہیں اس کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ لیکن کئی مصروفیات کی وجہ سے وہ ‘آل انڈیا کشمیر کمیٹی’ کے منصب صدارت سے مستعفی ہو گئے۔ لیکن ایک فعال کارکن کی حیثیت سے کمیٹی کے تمام اجلاسوں میں باقاعدگی سے شامل ہوتے رہے۔

غرض علامہ کا کشمیر کنکشن تاریخی، دینی، روحانی اور ثقافتی نوعیت کا تھا۔ یہ تعلق بہت مضبوط اور مستحکم تھا۔ دانائے راز عمر بھر اس کنکشن کی آبیاری اور حق ادائی کرتے رہے۔

Shares: