ڈیرہ غازی خان سمینہ سادات (نامہ نگار جواد اکبر ) پرانے ڈیرہ کی نشانیاں قدیم درخت ہوس پرستوں کی وجہ معدومیت کاشکار
دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر پرانا ڈیرہ غازی خان آباد تھا جو کہ تقریباً ایک120 سال قبل دریائے سندھ نے تہزیب و ثقافت سمیت پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے کر ہستے بستے شہرکوصفحہ ہستی سے مٹا دیا تھااور 1908اور1910 میں پرانے ڈیرہ غازیخان کے مغرب تقریباََ20 کلومیٹردور نیاشہر معرض وجود میں آیا۔ پرانے ڈیرہ غازیخان کے کافی باقیات اور نشانیاں کچھ موجود تھیں لیکن ان کا خاص خیال نہ رکھنے کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ تباہ ہو رہی ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے سیاسی و سماجی ،علمی ادبی شخصیت جناب صاحبزادہ رحیم آصف مجددی نے بتایاکہ سمینہ سادات کے علاقہ پل سیدن شریف پر ایک بہت ہی قدیمی برگد کا درخت موجود ہے جو کہ کافی وسیع تھا لیکن لیکن چند پیسوں کی لالچ میں اس کا کافی حصہ کاٹ دیا گیا۔اور اسی طرح سے دال والے پر بھی ایک پرانہ درخت موجود ہے وہ بھی چند پیسوں کی نظر ہو گیا،اسی طرح دری میرو پر بھی بہت بڑا برگد کادرخت تھا جو افسران کی غفلت اور محکمہ انہار کے لالچی مقامی بیلدار کاٹ کر کھاگئے ،اب اس درخت والی جگہ پر تھانہ دراہمہ کی پولیس چوکی بن چکی ہے ،جناب رحیم آصف مجددی کا کہنا ہے کہ ہمارے اس ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی علاقے ہوں یا دریائی علاقہ ہوں اس میں کافی تعداد میں قدیم درخت پائے جاتے ہیں ۔یہ درخت تاریخی ثقافتی ورثوں کے مالک ہیں ۔یہ سب درخت تاریخ کے حوالے سے اتنے قدیم ہیں ہزاروں سال پرانے ہیں کہ جب یہاں سے افغانستان اور مشرق وسطی ممالک کے کارواں دہلی جاتے تھے وہ ان درختوں کے سائے میں آرام کرتے تھے،آج اس دور میں چند پیسوں کی لالچ میں ان پرانے ثقافتی و وراثتی درختوں کو بے دردی سے کا ٹا جا رہا ہے ،کاش کوئی اس درد کو سمجھ سکے ہم نے اپنے جدت کے نام پر کیسے ثقافت کو ختم کیا-
Shares: