یوم ولادت،نوام چومسکی،ماہر لسانیات،فلسفی ادیب

0
34

پیدائش: 07 دسمبر 1928ء
رہائش:لیکسنگٹن، میساچوسٹس
دیگر نام:اَورام نوام چومسکی
رکن:
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)سربیائی اکادمی برائے سائنس و فنون
۔ قومی اکادمی برائے سائنس
۔ (2)امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون
۔ رائل سوسائٹی کینیڈا، امریکن فلوسوفیکل سوسائٹی
مادر علمی:جامعہ پنسلوانیا
تخصص تعلیم:لسانیات
تعلیمی اسناد:بی اے،ماسٹر آف آرٹس
مادری زبان:امریکی انگریزی
شعبۂ عمل:لسانيات، نفسیات، اخلاقیات، سیاسیات
ملازمت:میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی
کارہائے نمایاں:نحوی اجزاء (کتاب)
اعزازات:
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)تمغا بنجمن فرینکلن (1999)
۔ (2)ہیلمولٹز میڈل (1996)
۔ (3)فیلو رائل سوسائٹی کینیڈا

اَورام نوام چومسکی (پیدائش 7 دسمبر 1928) ایک یہودی امریکی ماہر لسانیات، فلسفی، مؤرخ، سیاسی مصنف اور لیکچرر ہیں۔ ان کے نام کا اولین حصہ اَورام دراصل ابراہیم کا عبرانی متبادل ہے۔ وہ مشہور زمانہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شعبہ لسانیات میں پروفیسر ہیں اور اس ادارے میں پچھلے 50 سالوں سے کام کر رہے ہیں۔ چومسکی کو لسانیات میں جینیریٹو گرامر کے اصول اور بیسویں صدی کے لسانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے کام سے کمپیوٹر سائنس، ریاضی اور نفسیات کے شعبے میں ترقی ہوئی۔ چومسکی کی خاص وجہ شہرت ان کی امریکی خارجہ پالیسی اور سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید رہی ہے۔ وہ 100 سے زیادہ کتابوں کے خالق ہیں۔ دنیا بھر میں انہیں لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ان کی ایک کتاب دنیا کس طرح کام کرتی ہے نے بڑی شہرت پائی۔
1967ء میں انہوں نے نفسیات کے شہرت یافتہ سائنسی کتاب بی ایف سکينر کی وربل بی یوير کی تنقید لکھی جس نے 1950 کی دہائی میں وسیع قبولیت حاصل ہوئی نظریہ کردار Behaviorism کے اصولوں کو چیلنج کیا، تو اس سے اگنيٹو نفسیات میں ایک طرح کے انقلاب کا آغاز ہوا، جس سے نہ صرف نفسیات کا مطالعہ اور تحقیق متاثر ہوئی۔ بلکہ لسانیات، سوشیالوجی، انسانی نفسیات جیسے کئی شعبوں میں تبدیلی آئی۔

آرٹس اینڈ يومنٹج ساٹیشن انڈیکس کے مطابق 1980-92 کے دوران جتنے محققین اور علما کرام نے چومسکی کا حوالہ دیا ہے، اتنا شاید ہی کسی زندہ مصنف سے متعلق کیا گیا ہو اور اتنا ہی نہیں، وہ کسی بھی مدت میں آٹھویں سب سے بڑے حوالہ کیے جانے والے مصنف ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ فار سائنٹیفک انفارمیشن کے ایک حالیہ سروے کے مطابق تعلیمی کتب، تحقیق خطوط وغیرہ میں مارکس، لینن، شیکسپیئر، ارسطو، بائبل، افلاطون اور فرائیڈ وغیرہ کے بعد چامسکی سب سے زیادہ حوالہ کیے جانے والے عالم ہیں جو ہیگل اور سسرو وغیرہ کو بھی شکست دیتے ہیں۔
نوام چومسکی کی پہلی پہچان یہ ہے کہ وہ ماہر لسانیات ہیں۔ انھوں نے 1950ء کی دہائی میں یہ انقلابی نظریہ پیش کیا تھا کہ تمام زبانوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ انھیں بجا طور پر اپنے شعبے کا آئن سٹائن کہا جاتا ہے۔ تا ہم نوام چومسکی کی سیاسیات کے موضوع پر تحریروں نے بھی عالمی توجہ حاصل کی۔ نوام چومسکی اس عالمی جدوجہد کے ایک مفکر اورایکٹوسٹ ہیں جو نہ صرف ریاستی دہشت گردی بلکہ اقتصادی دہشت گردی کے بھی مخالف ہیں۔
1960 کی دہائی کے ویت نام کی جنگ کی تنقید میں لکھی کتاب دی رسپانس بلٹي آف اینٹلی چولز (خرد مندوں کی ذمہ داری) کے بعد چومسکی خاص طور پر بین الاقوامی سطح پر میڈیا کے ناقدین اور سیاست کے عالم کے طور پر جانے جانے لگے، بائیں بازو اور امریکہ کی سیاست میں آج وہ ایک متحرک دانشور کے طور میں جانے اور تصورکیے جاتے ہیں۔ اپنے سیاسی ایکٹوزم اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کی تنقید کے لیے آج انھیں پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔

چومسکی نے اکثر موقعوں پر امریکی کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسامہ بن لادن کی موت پر چومسکی کہتے ہیں
”ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ ہم کیا محسوس کرتے اگر عراقی کمانڈوز جارج ڈبلیو بش کے احاطے میں اترتے، اسے قتل کرتے اور اس کی لاش اٹلانٹک سمندر میں پھینک دیتے۔ اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں کہ بش کے جرائم بن لادن کے جرائم سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور بش مشتبہ نہیں بلکہ یقینی طور پر فیصلہ کرنے والا اور وہ احکام دینے والا رہا ہے جس سے بدترین بین الاقوامی جرائم کیے گئے۔ ایسے ہی جرائم میں نازیوں کو پھانسی دی گئی تھی یعنی لاکھوں کی موت، کروڑوں کی ملک بدری، ملک کے بیشتر حصے کی تباہی اور بد ترین فسادات۔“

Leave a reply