دیکھ کرجس کوٹھہرجائیں مسافرکے قدم ایسا منظرتوکوئی راہ میں آیا ہی نہیں: شبانہ زیدی شبین کی خوبصورت باتیں

0
55

دیکھ کر جس کو ٹھہر جائیں مسافر کے قدم
ایسا منظر تو کوئی راہ میں آیا ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورا نام: شبانہ زیدی شبین
قلمی نام: شبین
والد کا نام: سید ظفر زیدی
والدہ کا نام: سیدہ مہرالنساء
شوہر کا نام سید ذاکر حسین زیدی
بچوں کے نام:
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)کنول
۔ (2)ثمر
۔ (3) مظفر
۔ (4)اظفر
۔ (5)حسنین رضا
۔ (6)احسن رضا
آبائی وطن : اوکاڑہ، پاکستان ۔
جائے ولادت: لیہ
تاریخِ ولادت: 10 دسمبر 1988
تعلیم: ایم اے۔ ایم ایڈ
پیشہ: درس و تدریس
آغازِ تحریر:۔ 2005
تصنیفات
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)سلگتے کنول۔2008
۔ (2)اک شہر بسا پانی پر۔2013
۔ (3)میں خیال ہوں کسی اور کا
۔ (انتخاب )
۔ (4)موج سبد گل2016
۔ (رثائی شاعری )
۔ (5)نظم کہانی۔2018
۔ ( بچوں کے لیے )
ان کے علاوہ دو ناول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔1۔ سراب۔۔ 1988
۔2سوشلزم اور عشق بلاخیز ۔ منتظر اشاعت
پذیرائی: پروین شاکر ایوارڈ
شریف اکیڈمی
ایوارڈ:دختر لیہ ٹائٹل ایوارڈ
روش انٹرنیشنل ایوارڈ
اور بےشمار ایوارڈ و اسناد
پتا:۔ صدر گوگیرہ۔اوکاڑہ پنجاب۔پاکستان

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کے رونے سے موسم ہرا نہیں ہوتا
دو آنسوؤں سے زمیں کا بھلا نہیں ہوتا
ہماری دوستی اس چاند سے ہو ئی جب سے
کسی اندھیرے اب سے سامنا نہیں ہوتا
ہوائے تازہ کا ہوتا بھی تو گزر کیسے
دریچہ ذہن کا جب تک کھلا نہیں ہوتا
ہوں جس کے اپنے ہی چہرے پہ داغ اور دھبے
وہ دوسروں کے لیے آئینہ نہیں ہوتا
اکیلی شام مہکتی ہے میرے آنگن میں
اب انتظار کسی دوست کا نہیں ہوتا
ہمیں تو جینا ہے خود اپنے ہی اصولوں پر
آمیر شہر کسی کا خدا نہیں ہوتا
خدا ڈبوئے تو پھر کیسے پار اترو گے
خدا سے بڑھ کے کوئی ناخدا نہیں ہوتا
تمھاری یاد بھی اب تھک چکی ہے آ آ کر
شبین ہم سے بھی اب جاگنا نہیں ہوتا

غزل
۔۔۔۔۔۔
اب کے موسم میں کوئی خواب سجایا ہی نہیں
زرد پتوں کو ہواؤں نے گرایا ہی نہیں
دیکھ کر جس کو ٹھہر جائیں مسافر کے قدم
ایسا منظر تو کوئی راہ میں آیا ہی نہیں
کیوں ترے واسطے اس دل میں جگہ ہے ورنہ
کوئی چہرہ مری آنکھوں میں سمایا ہی نہیں
اس نے بھی مانگ لیا آج محبت کا ثبوت
ایک لمحے کے لیے جس کو بھلایا ہی نہیں
مجھ کو تنہائی نے گھیرا ہے کئی بار مگر
اس کی یادوں نے مگر ساتھ نبھایا ہی نہیں
جس کی خوشبو سے مہکتے مرے گھر کے در و بام
وقت نے رنگ کوئی ایسا دکھایا ہی نہیں
روشنی اپنے مقدر کہاں ہوگی شبینؔ
جب دیا ہم نے اندھیروں میں جلایا ہی نہیں

غزل
۔۔۔۔۔۔
رتوں کا لمس شجر میں رہے تو اچھا ہے
مٹھاس بن کے ثمر میں رہے تو اچھا ہے
کہاں سے دل کے علاقے میں آ گئی دنیا
یہ سر کا درد ہے سر میں رہے تو اچھا ہے
مرا قیام ہے گھر میں مسافروں جیسا
یہ گھر بھی راہ گزر میں رہے تو اچھا ہے
میں سن رہی ہوں قیامت کی آہٹوں کو شبینؔ
حیات پھر بھی سفر میں رہے تو اچھا ہے

Leave a reply