کیا خدا موجود نہیں؟ — ابو الوفا محمد حماد اثری

0
56

خدا انسانوں پر ہونے والے ظلم کو کیوں نہیں روکتا، لہذا خدا موجود ہی نہیں۔ میں نہیں سمجھا کہ آخر اس شکوے کو نام کیا دیا جاوے۔

یا تو مانو کہ وہ نہیں ہے، اگر نہیں ہے تو ظلم نا روکنے کا شکوہ کس سے کیا جا رہا ہے، اسی خداوند قدوس سے، جس کا وجود ہی نہیں۔ اور یا مانو کہ وہ ہے، مگر ظلم کو روکتا نہیں ہے، پھر تمہارا سوال بجا ہوجائے گا کہ کیوں نہیں روکتا۔ لیکن اس سوال سے پہلے کا سوال یہ ہوئے گا کہ آخر ظلم نام کس بلا کا ہے، جس کو خدا روکتا نہیں ہے۔

آپ کہتے ہیں کسی جان کو بے وجہ قت۔ل کرنا تو ظلم ہے۔ ہم کہتے ہیں بجا فرمایا، مگر کس کے لئے؟ مٹی کی ایک سرحد نامی لکیر پاس کرنے پر دوسرے ملک کا سولجر اسے گولی سے بھون دیتا ہے تو ظالم کون ہوا؟ ایک ملک والے جانے والے کو شہی۔د اور دوسرے ملک والے مارنے والے کو غازی بنا دیتے ہیں، اب جس کو ظلم کہنے پر تم متفق ہی نہیں، اسے خدا کیوں روکے؟

بالفرض انڈیا اگر پاکستان پر حملہ کرتا ہے اور خدا ان کی بندوقوں میں کیڑے ڈال دیتا ہے، ان کے گھوڑے خراب کر دیتا ہے، اور تمہاری بندوقیں بمنزلہ ٹینک بنا دیتا ہے تو انڈیا والوں کے نزدیک تو خود خدا ظلم کی طرف کھڑا ہوگا اور تمہارے نزدیک وہ حق کے ساتھ کھڑا ہوگا، بعینہ یہی قصہ مخالف سمت میں ہوجاتا ہے، تمہاری بندوقوں میں کیڑے اور مخالفین کی بندوقوں میں گولے بھر دے تو پھر تم خدا کو کیا کہو گے؟ گویا جو چیز تمہارے ہاں ظلم ہے، تمہارے ہمسائے کے ہاں حق کی فتح ہے۔

تم کہتے ہو کسی کے پیسے ہتھیا لینا ظلم ہے، لہذا خدا کو روکنا چاہئے، تو گویا خدا کو سود کے پیسوں کو آگ لگا دینی چاہئے، پھر تم سود پر لڑو گے کہ کون سے سود والے پیسوں کو آگ لگائے، غامدی صاحب کی تعریف سود کے مطابق یا روایتی مولوی کی تعریف کے مطابق؟

ہمیں لگتا ہے کہ ٹیکس انسانیت پر ظلم ہے اور تم کہتے ہو کہ ملک کی معیشت چلانے کے لئے ٹیکس کا لینا فرض و واجب اور ٹیکس دینے والا تمہارا ہیرو ہے۔ اب بتاو وہ ٹیکس لینے والے کو روکے یا ٹیکس نا دینے والے کو روکے؟ کون سے والے ظلم کو روکے؟

جانور کو ذبح کرنا ایک جیتی جان کو مار دینا ظلم ہے یا نہیں ہے؟
انسانوں پر دواوں کے تجربات کرنا ظلم ہے یا نہیں ہے؟

اللہ کی زمین ہر لکیریں کھینچ کر اسے اپنی ملکیت قرار دینا اور پھر اس پر اپنا حق یوں جتانا کہ وہاں قدم رکھ دینے والا غدار کہلایا جائے، جاسوس کہا جائے اور پھر اسے جان سے جانا پڑے ظلم ہے یا نہیں ہے؟

سوال تو پھر سوال ہے، پیدا ہوگا تو جواب لے کر لوٹے گا کہ وہ کس ظلم کو روکے؟ کون سی چیز ہے جس کو ظلم کہنے پر تم انسانوں کا اتفاق ہوچکا ہے۔ اور اسے کس چیز کو روکنا ہوگا؟

جان لو کہ پوری مخلوق اس کا کنبہ ہے، اور اس نے اپنی اس مخلوق کو بہ طور امتحان دنیا میں بھیجا ہے۔ اب یہاں جو جس پر ظلم کرتا ہے، خدا کی رضا سے نہیں کرتا، بلکہ اس کے روکنے کے باوجود کرتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ ہر ظلم کا بدلہ دیا جائے گا، کل اس کی عدالت میں کھلے گا کہ کیا چیز ظلم تھی اور کیا چیز جہ۔اد تھی، فساد کیا تھا مظلومیت کیا تھی، جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔ تب جب دلائل وافر ہوں گے تو ان تمام چیزوں کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ یہی اس کا اصول ہے اور یہی اس کے اصولوں کے قرین قیاس ہے۔

Leave a reply