صاف لگتا ہے ۔۔۔ نسلِ آدم کی خوب تراش خراش ہوتی رہی ہے۔
ناٹے قد بت کے انسان، لمبے اور زور آور انسان ۔۔۔ اور پھر رنگا رنگ مزاج کے انسان: جنگجو، فتنہ جُو، صلح جُو، نرم خُو انسان. دانائی سے لبا لب بھرے ہوئے سمجھدار انسان، تخلیق کار انسان ۔۔۔
شقاوتِ قلب والے بےلچک انسان ـــــ جن کے دل شیطانی قوت و طاقت کی مستقل آماجگاہ ہوتے ہیں۔ سورۃ الناس کی آخری آیت میں ‘مِن الجنۃِ وَالنّاس” کہہ کر ہمارے گردوپیش میں ایسے ہی افراد کی موجودگی کو highlight کیا گیا ہے۔ اِنہیں شیاطین کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ گویا خود اِن کو شیطان قرار دیا گیا ہے، اور اِن سے اللہ کی پناہ طلب کرنا سکھایا گیا ہے۔
فطرت کا اپنا ایک بیوٹی پارلر ہے، ابتدا سے ہی سرگرمِ عمل ہے۔
اللہ اس فطرت کا خالق ہے، اور تخلیق کار ہمیشہ نئے تجربے کرتا رہتا ہے۔اپنی تخلیق میں نئے نئے رنگ بھرتا رہتا ہے۔
اللہ نے بھی بےشمار تجربے کیے ہیں۔ عقل کے سافٹ ویئر کو بھی لاکھوں رنگ رُوپ بخشے ہیں، یعنی ایک تو جبلّت ہے: بھوک، پیاس، جنسی لذّت، حسد، عزّت و جاہ کی طلب وغیرہ۔ ساتھ میں یہ تِھنکنگ مشین الگ سے وجود رکھتی ہے۔ یہ برین پاور ایک الگ فینامینن ہے۔ جیسے عقاب کی عقلمندی، بعض مچھلیوں کا عجیب و غریب ذہنی رویہ، بعض جانوروں میں حیرت انگیز دور اندیشی! اور پھر حضرتِ انسان کی عقلمندی اور اِس کے پینترے تو خیر اخیر شے ہے ۔۔۔
اللہ کہتا ہے ‘تمہیں از سرِ نو بنا لینا، اٹھا کھڑا کرنا زیادہ مشکل کام ہے یا اِن ستاروں اور سیاروں پر مشتمل کہکشاؤں کے پیچیدہ نظام کو؟’
یعنی ایک انسان کو حیاتِ نو بخشنا میرے لیے معمولی کام ہے!
خیر، اب تو Terminator جیسی فلموں میں دکھائی جا رہی سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی بھی اشارے دے رہی ہے کہ کیسے چند کیمیکلز سے بنا انسان ازسرِ نو اُسی شکل و شباہت اور قد بُت میں متشکّل ہو کر جیتے جاگتے وجود کی صورت دوبارہ و سہہ بارہ سامنے آ سکتا ہے۔
گویا انسان کے مقابلہ میں لاکھوں گنا بڑے، لاکھوں ٹن وزنی، پیچیدہ کیمیائی مرکٗبات اور اُن کے آپسی تعامل پر مبنی ایک ستارہ بنانا زیادہ مشکل ہے۔
اس سے بھی زیادہ مشکل ایک سو ملّین ستاروں والی ایک چھوٹی کہکشاں ۔ پھر اس سے زیادہ مشکل کام ایک ٹرلین ستاروں والی بڑی کہکشاں۔ پھر اس سے بھی زیادہ مشکل کام ایسی لاکھوں، کروڑوں کہکشاؤں کو آپس میں مربوط کرنا، انہیں برقرار رکھنا۔ ردّی کی ٹوکریاں یعنی بلیک ہولز بنا کر رفتارِ سیارگان کو متاثر کرتے اضافی فلکی اجسام کو ٹھکانے لگا دینا ۔۔۔
ایسا کیوں نہیں کہ اللہ نے اپنی اِن تخلیقات میں سےچند ایک کے نام بتا کر، خوب جتا کر، اس پیچیدہ و حسین انتظام کی تعریف و تحسین کا حکم دیا ہو ۔۔۔؟
تھوڑا بہت ایسے کلمات مل جاتے ہیں جن میں اللہ کی کاریگری اور حسنِ انتظام کی تحسین کے اشارے موجود ہیں۔ تاہم، اللہ کی طرف سے موصول ہوئے خطوط / پیغامات میں تاکیدی زور کسی اور بات پر ہے۔
اِس بات پر کہ تم سب کی نظریں میرے محمدؐ پر فوکس رہیں!
اِس شخص کو کاپی کرو، اِس کی بات مانو، اِس کے باطنی اور ظاہری manners کو اپناؤ، اِس صاحبِ عزّت و تکریم کی کوئی ایک ادا، کوئی ایک انداز اپناؤ ۔۔۔ اپنے معاملات اِس کے کہے اور کیے کی روشنی میں درست کر لو۔ اِس کے حق میں ہر روز کئی مرتبہ سلیوٹ بجا لاؤ۔ اِس پر درود و سلام بھیجو۔
مختصر وقفہِ حیات میں اِس محمّدی discipline code پر رہ کر وقت گذار جاؤ تو ایسی مہیب، حسین، پیچیدہ کہکشائیں، یہ خصوصی انتظام پھر تمہارا منتظر ہے۔ ذرا زیادہ اچھے بندے کے لیے جنت الفردوس والی بزنس اِیلیٹ کلاس میں luxury apartments تیارپڑے ہیں۔ کیا سے کیا سُوپر سونک برّاق اور اڑتے قالین بھی ۔۔۔۔ اُن کی تمنّا کرو، انہیں اچِیو کرنے کی سعی کرو ۔۔۔! جبکہ اِس دنیا میں جو کچھ ہاتھ لگے، اُسے دوسروں پر نثار کرتے چلو۔ امن و آشتی کا خیال رکھو۔ لالچ اور حسد سے پرہیز کرو۔ مادّیت پرستی کے خول میں جکڑے جانے سے بچو۔ معاف کر دو، انتقام نہ لو ۔۔۔ یہی میرے محمّدؐ کا طرزِ حیات تھا، یہی محمّدیؐ کوڈ آف ڈسپلن ہے۔
اِس عارضی قیام گاہ میں خواہ تم ایک ریڑھی بان ہو، کوئی سرکاری ملازم، یا امیر کبیر تاجر پیشہ۔ یہاں جس حال میں بھی ہو، اپنے دائرہ کار میں میرے محمّد کے دئیے ہوئے ضابطہِ حیات کو تھامے رکھو:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یومِ اقبالؒ پر لکھی ایک نامکمل تحریر جسے آج مکمل کر ڈالا ۔۔۔ جَسٹ سَم رینڈم تھاٹس۔