تو جتنا بھی انہیں اپنا سمجھ لے
سیاسی ہستیاں تیری نہ میری
معروف شاعرہ امیتا پرسورام کا قلمی نام امیتا پرسو رام میتا ہے امیتا 15دسمبر 1955ء میں پیدا ہوئیں-
غزل
۔۔۔۔۔
شدت شوق سے افسانے تو ہو جاتے ہیں
پھر نہ جانے وہی عاشق کہاں کھو جاتے ہیں
مجھ سے ارشاد یہ ہوتا ہے کہ سمجھوں ان کو
اور پھر بھیڑ میں دنیا کی وہ کھو جاتے ہیں
درد جب ضبط کی ہر حد سے گزر جاتا ہے
خواب تنہائی کے آغوش میں سو جاتے ہیں
بس یوں ہی کہتے ہیں وہ میرے ہیں میرے ہوں گے
اور اک پل میں کسی اور کے ہو جاتے ہیں
ہم تو پابند وفا پہلے بھی تھے آج بھی ہیں
آپ ہی فاصلے لے آئے تو لو جاتے ہیں
کوئی تدبیر نہ تقدیر سے لینا دینا
بس یوں ہی فیصلے جو ہونے ہیں ہو جاتے ہیں
کچھ تو احساس محبت سے ہوئیں نم آنکھیں
کچھ تری یاد کے بادل بھی بھگو جاتے ہیں
غزل
۔۔۔۔۔
بن گئے دل کے فسانے کیا کیا
کھل گئے راز نہ جانے کیا کیا
کون تھا میرے علاوہ اس کا
اس نے ڈھونڈے تھے ٹھکانے کیا کیا
رحمت عشق نے بخشے مجھ کو
اس کی یادوں کے خزانے کیا کیا
آج رہ رہ کے مجھے یاد آئے
اس کے انداز پرانے کیا کیا
رقص کرتی ہوئی یادیں ان کی
اور دل گائے ترانے کیا کیا
تیرا انداز نرالا سب سے
تیر تو ایک نشانے کیا کیا
آرزو میری وہی ہے لیکن
اس کو آتے ہیں بہانے کیا کیا
راز دل لاکھ چھپایا لیکن
کہہ دیا اس کی ادا نے کیا کیا
دل نے تو دل ہی کی مانی میتاؔ
عقل دیتی رہی طعنے کیا کیا
غزل
۔۔۔۔۔
محبت مہرباں تیری نہ میری
مکمل داستاں تیری نہ میری
گنوا دی عمر جس کو جیتنے میں
وہ دنیا میری جاں تیری نہ میری
خدا جانے ہے کس کا درد کتنا
یہ سانجھی سسکیاں تیری نہ میری
ہیں نا انصافیاں ہر سمت لیکن
کھلی اب تک زباں تیری نہ میری
بچا ہے اور نہ کوئی بچ سکے گا
غموں کی آندھیاں تیری نہ میری
تو جتنا بھی انہیں اپنا سمجھ لے
سیاسی ہستیاں تیری نہ میری
صحافت کو خریدا اہل زر نے
رہی اب سرخیاں تیری نہ میری
اداکاری ریا کاری دکھاوا
حقیقت کی زباں تیری نہ میری