ہندوستان کے معروف شاعر سید ساغر مہدی بہرائچی 14؍جولائی 1936ء کو شہر بہرائچ کے محلہ سیدواڑہ قاضی پورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید خورشید حسن زیدی اور والدہ کا نام محترمہ رقیہ بیگم تھا۔ سید ساغرؔ مہدی کے والد کا انتقال آپ کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ آپ کے بڑے بھائی سید اصغر مہدی نجمیؔ 1954ء میں کراچی پاکستان گئے اور وہیں بس گئے۔

والد کی وفات کے بعد آپ کی کفالت کی ذمہ داری آپ کے ماموں سید ہدایت حسین زیدی قمرؔ نے لی اور بہن اور بھانجوں کی کفالت مذہبی ذمہ داری کے ساتھ نبھائی۔ ساغرؔ مہدی کے ماموں سید ہدایت حسین زیدی کو شعر و شاعری کا شوق تھا،ان کی رہائش گاہ پر اکژ ادبی محفلیں ہوتی رہتی تھی۔ جس کی وجہ سے ساغرؔ مہدی کو بھی شعری ذوق پیدا ہوا۔

بچپن میں آپ کی والدہ میر انیسؔ کے مرثیے انہیں یاد کراتی تھی اور سنا بھی کرتی تھیں۔ جس کی وجہ سے ان طبعت میں ایک خاص قسم کی موزونیت اور سوزوگراز پیدا ہوا۔ 1958ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ 1967ء میں مقامی آزاد انٹر کالج سے تعلیم مکمل کی اوربعد میں مقامی مہاراج سنگھ انٹر کالج میں اردو کے استاد ہوئے۔

ساغرؔ مہدی بہرائچی اپنے وقت میں ضلع بہرائچ میں سب سے زیادہ مشہور شاعر ہوئے۔ آپ کا ادبی حلقہ بہت وسیع تھا جس میں فراقؔ گورکھپوری، کیفیؔ اعظمی، ڈاکڑ عرفان عباسیؔ لکھنؤ، جمالؔ بابا، و صفیؔ بہرائچی، ڈاکٹر نعیم ﷲ خیالیؔ بہرائچی، شفیعؔ بہرائچی، محسنؔ زیدی، اثرؔ بہرائچی، حاجی لطیف نوری لطیفؔ بہرائچی، عمرؔ قریشی گورکھپوری، عبرتؔ بہرائچی، واصف القادری نانپاروی، ایمن چغتائی نانپاوری، محشرؔ نانپاروی، فناؔ نانپاروی، رفعتؔ بہرائچی، نعمتؔ بہرائچی، شاعرؔ جمالی، جون ایلیا، خماؔر بارہ بنکوی ملک زادہ منظورؔ احمد، پروفیسر احتشام حسین، رزمیؔ صاحب، اطہرؔ رحمانی وغیرہ سے آپ کے قریبی تعلوقات تھے۔

ادبی کاوشیں
ساغرؔ مہدی بہرائچی صاحب کے دو مجموعہ کلام کے دو شعری مجموعے ’حرف جاں‘ اور ’دیوانجلی‘ کے نام سے شائع ہو کر منظر عام پر آئے جبکہ نثری مضامین کا مجموعہ ’تحریر اور تحلیق‘ بھی شائع ہوا اور داد تحسین حاصل کی۔ دیوانجلی پر اردو اکادمی اتر پردیش اور صوبہ بہار نے انعام سے بھی نوازا تھا۔
سید ساغرؔ مہدی 20؍دسمبر 1980ء کو بہرائچ میں انتقال کر گئے۔

ویکیپیڈیا سے ماخوذ

سید ساغرؔ مہدی بہرائچی کی شاعری سے انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ تو وفا کا رنگ ہو دست جفا کے ساتھ
سرخی مرے لہو کی ملا لو حنا کے ساتھ

ہم وحشیوں سے ہوش کی باتیں فضول ہیں
پیوند کیا لگائیں دریدہ قبا کے ساتھ

صدیوں سے پھر رہا ہوں سکوں کی تلاش میں
صدیوں کی بازگشت ہے اپنی صدا کے ساتھ

پرواز کی امنگ نہ کنج قفس کا رنج
فطرت مری بدل گئی آب و ہوا کے ساتھ

کیا پتھروں کے شہر میں دوکان شیشہ گر
اک شمع جل رہی ہے غضب کی ہوا کے ساتھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طوفان تھم چکا ہے مگر جاگتے رہو
کس وقت کی ہے کس کو خبر جاگتے رہو

شعلے بجھا کے ہم سفرو مطمئن نہ ہو
پوشیدہ راکھ میں ہے شرر جاگتے رہو

اب روشنی میں بھی ہے اندھیروں کا مکر و فن
کیا اعتبار شام و سحر جاگتے رہو

ہر ذرۂ چمن میں ہے لعل و گہر کا رنگ
لٹنے نہ پائیں لعل و گہر جاگتے رہو

اب رات خود ہے اپنی سیاہی سے بیقرار
آواز دے رہی ہے سحر جاگتے رہو

ساغرؔ یہ غم کی رات یہ راہوں کے پیچ و خم
دشمن بھی ہے شریک سفر جاگتے رہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرے غموں کا کسی نے خیال بھی نہ کیا
کسی سے میں نے مگر عرض حال بھی نہ کیا

میں دور تک اسے دیکھا کیا نہ جانے کیوں
ٹھہر کے جس نے ذرا سا ملال بھی نہ کیا

پھرا میں باغ میں مانند برگ آوارہ
شمیم گل نے مگر پائمال بھی نہ کیا

حریف ہو گئی دنیا یہ کیا کیا میں نے
کسی ہنر میں کچھ ایسا کمال بھی نہ کیا

شکست جام پہ میں پھوٹ پھوٹ کر رویا
شکستہ شیشۂ دل کا خیال بھی نہ کیا

مری سرشت میں وہ لا شریک تھا کہ مجھے
خدائے صاحب اہل و عیال بھی نہ کیا

ستم کشوں نے ہزاروں سوال سوچے تھے
ستم شعار نے لیکن سوال بھی نہ کیا

Shares: