معروف شاعر نجم آفندی کا یوم وفات

ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور

نجم آفندی اردو کے نامور مرثیہ گو شاعر تھے۔ وہ اردو شاعری کے جدید اصناف شاعری میں نئے تجربوں کے لیے بھی شہرت رکھتے تھے۔

نام اور خاندان
۔۔۔۔۔۔۔۔
نجم آفندی کا اصل نام میرزا تجمل حسین تھا۔ وہ 1893ء میں آگرہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بزم آفندی، دادا مرزا عباس علی ملیح، پردادا مرزا نجف علی بلیغ اور پردادا کے بھائی مرزا جعفر علی فصیح، سب شاعر تھے۔ مرزا جعفر علی فصیح کو حاجیوں کی خدمت کرنے پر سلطنت عثمانیہ کی جانب سے آفندی کا خطاب ملا اور یہی اس خاندان کے ناموں کا حصہ بن گیا تھا۔

کلام کی قدر دانی
۔۔۔۔۔۔۔۔
خاندانی احوال کے زیر اثر نجم کم عمری سے شاعری کرنے لگے۔ انھوں نے اپنی مشہور نظم در یتیم لکھنؤ میں سنائی تھی۔ اس نظم پر بولی لگائی گئی تھی اور سب سے زیادہ بولی لگانے والے راجا راولپنڈی نے اسے 5600 روپیوں میں خریدا تھا (جو 1910ء میں ایک چونکانے والی قیمت تھی)۔ رقم کی وصولی کے بعد نجم نے اسے یتیم خانے کے حوالے کر دیا تھا۔

ترقی پسند تحریک کے وجود میں آنے سے پہلے ہی نجم ”کسان“، ”مزدور کی آواز“، ”ہماری عید“ جیسے موضوعات کو اپنے شاعرانہ کلام کا حصہ بنا چکے تھے نجم اپنی زندگی کے بعد کے ایام میں خالصتًا مذہبی شاعری اور مرثیہ نگاری کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔

مجموعہ کلام
۔۔۔۔۔۔
نجم نے کئی مرثیے، نوحے، قصائد اور رباعیات قلم بند کیں جنھیں بعد میں ”کلیاتِ کائناتِ نجم“ کے نام سے دو جلدوں میں شائع کیا گیا تھا۔

ہجرت اور انتقال
۔۔۔۔۔۔۔۔
اپریل 1971ء میں نجم آفندی ہندستان سے ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے۔ وہ کراچی میں بس گئے اور 21 دسمبر 1975ء کو کراچی ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ سخی حسن کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔

غزل
۔۔۔۔۔۔
ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور
پھر ٹھہر گیا قافلۂ درد سنا ہے
شاید کوئی رستے میں مری طرح گرا اور
اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر
جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور
منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا
تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور
اللہ گلہ کر کے میں پچتایا ہوں کیا کیا
جب ختم ہوئی بات کہیں اس نے کہا اور
کیا زیر لب دوست ہے اظہار جسارت
حق ہو کہ وہ ناحق ہو ذرا لے تو بڑھا اور
دولت کا تو پہلے ہی گنہ گار تھا منعم
دولت کی محبت نے گنہ گار کیا اور
یہ وہم سا ہوتا ہے مجھے دیکھ کے ان کو
سیرت کا خدا اور ہے صورت کا خدا اور

غزل
۔۔۔۔۔
محبت کی وہ آہٹ پا نہ جائے
اداؤں میں تکلف آ نہ جائے
تری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی ہیں
کریں کیا جب تجھے دیکھا نہ جائے
کہیں خود بھی بدلتا ہے زمانہ
زبردستی اگر بدلا نہ جائے
محبت راہ چلتے ٹوکتی ہے
کسی دن زد میں تو بھی آ نہ جائے
وہاں تک دین کے ساتھی ہزاروں
جہاں تک ہاتھ سے دنیا نہ جائے
ترے جوش کرم سے ڈر رہا ہوں
دل درد آشنا اترا نہ جائے
کہاں تم درد دل لے کر چلے نجمؔ
مزاج درد دل پوچھا نہ جائے

Comments are closed.