ہم پاکستان کی آبی تاریخ کے شاید سب سے ظُلمی سال کو الوداع کہنے جا رہے ہیں جس کے پہلے چھ ماہ پانی کی کمی سے لوگ اور جانور مرتے رہے تو اگلے چھ ماہ بارشی سیلابی پانی کی زیادتی سے۔
اس سال کی شروعات ہی تاریخ کی بدترین خشک سالی سے ہوئی۔تربیلا ڈیم 22 فروری کوئی ڈیڈ لیول پر آگیا تھا۔ محکمئہ موسمیات کے مطابق اس سال مارچ اور اپریل کے مہینوں میں ملک بھر یں معمول سے 62 فی صد سے لے کر 74 فی صد تک کم بارشیں ہوئیں اور یہ مہینے گزشتہ چھ دہائیوں کے اب تک کے سب سے زیادہ گرم مہینے تھے۔گرمی کی شدت کا اندازہ لگائیں کہ مئی میں ژوب کے پاس ضلع شیرانی کے ہزاروں ایکڑ پر پھیکے زیتون اور چلغوزوں کے باغات میں آگ بڑھک اٹھی جس پر کئی ہفتوں کی کوشش کے بعد ہی قابو پایا جاسکا۔ 10 کلومیٹر لمبائی کا علاقہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ہزاروں درخت جل گئے اور اس زیادہ جنگلی حیات مر گئی۔
مار چ اپریل میں ہی سندھ اور پنجاب جے کاشتکار پانی کی کمی کی وجہ سے سڑکوں پر آگئے تھے جب نہروں میں ضرورت کا صرف ایک چوتھائی پانی چل رہا تھا اور خریف کی فصل خصوصاً گندم پانی کی کمی کی وجہ سے تباہی سے دوچار تھی۔
دوسری طرف مئی میں چولستان اور ڈیرہ بگٹی میں لمبی خشک سالی سے پانی کے ٹوبے ،کنڈ اور تالاب خشک ہو چکے تھے اور جانوروں کے ریوڑ کے ریوڑ پیاس سے مر رہے تھے اور ان علاقوں کی انسانی آبادی خطرے کو بھانپتے ہوئے ہجرت پر مجبور تھی۔ پیر کوہ میں تو کئی انسانی اموات بھی ہوئیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر اس مسئلے کے اجاگر ہونے سے ریسکیو 1122 اورکئی فلاحی تنظمیں متحرک ہوئیں اور ہنگامی بنیادوں پر ان علاقوں میں ٹینکرو سے پانی پہنچایا گیا۔ یاد رہے کہ پاکستان کا 17 فی صد سے زیادہ زمینی رقبہ صحرا پر مشتمل ہے جس میں صحرائے تھل، چولستان، تھر، نوشکی اور خاران کے علاقے شامل ہیں جہاں انسان اور جانور خشک سالی سے متاثر ہوئے۔
جہاں ایک طرف خشک سالی اور گرمی کی شدت زور پر تھی وہیں محکمئہ موسمیات نے اپریل کے آخر میں اس سال ایک ظالم مون سون آنے کی پیش گوئی کر دی تھی جسے زیادہ سنجیدگی سے نہ کیا گیا۔مئی کے آخر (22مئی) میں چولستان میں تیز بارش اور ژالہ باری ہوئی اور روہیلوں نے اس کا استقبال جشن منا کر کیا۔ تحفظ ماحولیات کی وزیر شیریں رحمان نے بھی 19 جون کی پریس کانفرنس میں اس سال معمول سے زیادہ بارشیں اور 2010 سے بھی بڑا سیلاب آنے کی خبر سنا دی لیکن خشک سالی کے ماحول میں اس اعلان کو توجہ نہ دی گئی۔
پاکستان میں تمام متعلقہ محکمے ہر سال مون سون کی آمد سے پہلے اپریل مئی تک مون سون سے نپٹنے کے اپنے اپنے منصوبے بنا کر حکومت کو جمع کروا دیتے ہیں لیکن ملک میں اُس وقت جاری سیاسی سرکس کی وجہ سے معمول کا یہ کام بھی صحیح طریقے سے نہ کیا گیا۔
جون کے آخر میں ملک سے سب بڑے شہر کراچی میں طوفانی بارشوں سے سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی۔ ہر طرف جل تھل ہو گئی اور پورے شہر کی آبادی کئی دنوں اپنے گھروں میں قید ہوگئی کیونکہ سڑکوں پر بارش کا پانی کھڑا تھا۔ انہی دنوں میں کراچی میں امان خان کاکاخیل ستون نیکی والے ابھر کر سامنے آئے جو کراچی میں بارشی پانی سے زمینی پانی کو ری چارج کرنے کے انتہائی سادہ اور کسی حد تک بالکل بنیادی مگر بے حد مفید طریقے سے خشک کنوؤں کو تر کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے تھے۔
جب ملک کراچی کے ڈوبنے کو دیکھ رہا تھا تو جون کے آخر اور جولائی کے شروع میں میانوالی میں کوہِ نمک اور ڈی جی خان میں کوہِ سلیمان پر ہونے والی طوفانی بارشوں سے پہاڑی نالوں میں آنے والے سیلابی ریلوں نے تباہی مچادی۔ کرک، لکی مروت اور ڈی آئی خان کے پہاڑوں کے دامن کے علاقے بھی طوفانی ریلوں کی زد میں آگئے لیکن سرکار ابھی تک بھی سوئی ہوئی تھی اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا۔
اس سال جولائی کے شروع ہوتے ہی شمالی بلوچستان میں مون سون شروع ہوگئی جس یں ژوب، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ ، لورا لائی، با رکھان، ہرنائی، پشین اور کوئٹہ تک میں بارشیں شروع ہو گئیں۔یہ عیدالاضحیٰ کے دن تھے۔ 6 جولائی سے شروع ہونے والی یہ بارشیں اگست تک جاری رہیں جو کہ بلوچستان کے کیے ایک غیر معمولی صورت حال تھی کیونکہ بلوچستان کے صرف مشرقی اضلاع ہی مون سون کی آخری حد ہیں جس کے بعد ان کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ تاہم اس دفعہ جنوبی بلوچستان میں بھی بارشوں نے تباہی مچا دی جس میں آواران اور تربت جیسے علاقے بھی شامل تھے۔کئی ڈیم اور بین الصوبائی رابطہ سڑکوں کے پُل ٹوٹ گئے۔ ہزاروں کلومیٹر سڑکیں سیلابی پانی کے ساتھ بہہ گئیں۔
جولائی کے تیسرے ہفتے تک سندھ بھی طوفانی مون سون کی زد یں آچکا تھا اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔بلوچستان اور سندھ میں ہونے والی اس سال کی مون سون اس لئے مختلف تھی کہ بارش کا ایک دورانیہ ختم ہوتے ہی دوسرا دور شروع ہوجاتا اور زمین جو پہلے ہی گیلی پڑی ہوتی اس میں پانی سینچنے کی بجائے فوراً سیلابی صورت حال اختیار کر لیتا۔ دوسرے ایک دو اسپیل کی بجائے بارش کے چھ سے سات اسپیل ہوئے اور چند دنوں میں ہی پانچ چھ سالوں کے حجم برابر مینہہ برس گیا۔محکمہ موسمیات کے مطابق معمول سے چھ گنا زیادہ بارشیں ہوئیں۔یہ پہلی دفعہ ہورہا تھا کہ سندھ میں دریائے کابل اور تربیلا سے چلے ہوئے سیلابی ریلے ابھی نہیں پہنچے تھے لیکن صوبے کا بڑا حصہ بارشی پانی سے زیرِآب آچکا تھا۔
اسی دوران کوہِ سلیمان کے سیلابی ریلے تونسہ اور ڈی جی خان یں تاریخی تباہی لے کر آئے اور کئی بستیوں کو آنِ واحد میں اُجاڑ کر رکھ دیا۔جولائی کے آخر تک کراچی کے لئے پانی ذخیرہ کرنے والا حب ڈیم بھر چکا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر مون سون کی سر زمین پنجاب میں معمولی بارشیں ہورہی تھیں۔
اگست کے آخر (26 اگست) میں مون سون نے وادئی سوات میں تباہی مچادی اور دریائے سوات اپنے کناروں سے چھلک پڑا۔ دریا کنارے بنائے گئے بیشتر سیاحتی ہوٹل تنکوں کی طرح پانی یں بہنے لگے۔ کے پی میں کوہستان کی وادئی دبیر میں پانچ بھائیوں کی سیلابی ریلے میں پھنسنے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چار بھائی سیلابی ریلے کے ساتھ مدد پہنچنے سے پہلے ہی بہہ گئے۔
سندھ اور بلوچستان کے ملحقہ علاقوں پر 100 اسکوائر کلومیٹر رقبے پر سیلابی پانی نے عارضی جھیل بنا دی جس کے دورے کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری بھی غمگین ہو گئے اور انہوں نے اس سیلاب کو “a monsoon in steroids” کہا۔ حکومت بھی جاگی اور سیلابی علاقوں میں فلاحی تنظیمیں متحرک ہو گئیں۔ صرف الخدمت کی طرف سے قائم کی گئی عارضی خیمہ بستیوں کی تعداد 40 سے تجاوز کر گئی۔
ان تباہ کن بارشوں کو عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ قرار دیا گیا اور عالمی سطح پر پاکستان سے ہمدردی کے جذبات دکھائے گئے کیونکہ پاکستان کا عالمی ماحول کو خراب کرنے والی گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر تھا لیکن یہ اس موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا تھا۔ سیلابوں سے پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا، تین کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئ، 2 ہزار سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور 8 لاکھ سے زیادہ جانور ہلاک ہوئے۔
نومبر کے پہلے ہفتے میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونیوالی عالمی ماحولیاتی کانفرنس (COP27) میں مصر نے پاکستان کو اس کی مشترکہ صدارت پیش کی ۔ پاکستان نے اس کانفرنس میں نمایاں ہو کر سامنے آیا۔ G77 کی سربراہ کے طور پر شرکت کی۔پاکستانی وفد نے عمدہ طریقے سے اپنا کیس لڑا اور دریائے سندھ کی بحالی کے منصوبے کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگیا۔
تاہم اکتوبر سے دوبارہ خشک سالی والے حالات بننا شروع ہو گئے ہیں ۔ سال کے آخری تین مہینوں میں معمول سے کم بارشیں ہوئی ہیں۔ شہری علاقوں خصوصاًلاہور کی فضاسموگ سے زہر آلود ہو چکی ہے۔
سال ختم ہونے کو ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت سندھ اور بلوچستان کے نشیبی علاقوں سے سیلابی پانی پچھلے چار مہینوں سے نہیں نکال سکی۔ کھجور، چاول اور کیلے کی فصل تو سیلاب نے پہلے ہی تباہ کردی ، اب کھڑے پانی میں گندم کی فصل بھی کاشت نہیں ہو سکتی۔ چشمہ رائٹ بنک کینال، کچھی کینال اور پٹ فیڈر کینال میں بھی سیلابی تباہی کے بعد بحالی کا کام ابھی تک نہ ہو سکنے کی وجہ سے نہری پانی نہیں چل رہا۔ کسانوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور یہ حالات ایک آنے والے دنوں میں خوراک کی قلت کا سنگین مسئلہ پیدا کر سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ آنے والا سال پاکستان کے آبی وسائل کی بہتری کا سال ہو۔