چپ تو پہلے بھی جھیلتے تھے مگر،یوم وفات خادم رزمی

0
106

چپ تو پہلے بھی جھیلتے تھے مگر
مگر اس قدر کب تھے بے زباں ہم لوگ

خادم رزمی

اصل نام:خادم حسین

تاریخ ولادت:2 فروری 1932ء
کبیر والا خانیوال، پاکستان
تاریخ وفات:2 جنوری 2006ء
خانیوال، پاکستان
مذہب:اسلام

خادم رزمی ضلع خانیوال کی تحصیل کبیر والا جنوبی پنجاب کے ایک مشہور شاعر ہیں۔ خادم رزمی کا اصل نام خادم حسین ہے۔
ولادت
۔۔۔۔۔۔
خادم رزمی کبیر والا کے ایک چھوٹے سے گاؤں محمود والا میں 02 فروری 1932ء کو پیدا ہوئے۔
معلم
۔۔۔۔۔
خادم رزمی ایک پرائمری اسکول ٹیچر کے طور پر کبیروالا کے مختلف قصبات میں تعینات رہے۔ سروس ریکارڈکے مطابق خادم رزمی 63 سال 8 ماہ ملازمت کرنے کے بعد 1991ء میں گورنمنٹ ماڈل مڈل اسکول دار العلوم کبیروالا میں ریٹائر ہوئے ۔
شاعری
۔۔۔۔۔
مولوی فضل دین اور لالہ رام لعل سرگباشی جیسے اساتذہ کی رہنمائی سے خادم رزمی کا شعری ذوق پروان چڑھا۔ ملازمت کا زیادہ تر عرصہ تاریخی شہر تلمبہ میں گزرا۔ جہاں کی اساطیری فضا نے ان کے شعری ذوق کو پروان چڑھانے اور قدیم تہذیبوں سے دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ تلمبہ جیسے قدیم تاریخی حیثیت والے شہر میں بزمِ ادب تلمبہ کے زیرِاہتمام ایک ماہانہ مشاعرہ ہوتا تھا ،جس میں خادم رزمی باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ غنضنفر روہتکی، صادق سرحدی ،جعفر علی خان، اسلام صابر دہلوی ،دلگیر جالندھری ،ڈاکٹر مہر عبدالحق، کیفی جامپوری ،وفا حجازی ،اسماعیل نور، بیدل حیدری، ساغر مشہدی، عاصی کرنالی ،جعفر طاہر، شیر افضل جعفری ،اور ضیغم شمیروی جیسے شعرا کی صحبت میسر آئی جنھوں نے ان کی علمی اور ادبی صلاحیتوں کو جلا بخشی ۔
مجموعہ کلام

ان کا اردو شعری مجموعہ ”زرِخواب“ یکم فروری 1991ء اور پنجابی شاعری مجموعہ ”من ورتی“1994ء میں شائع ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ایک اور پنجابی شاعری مجموعہ ” اساں آپے اُڈن ہارے ہو“ کے نام سے چھپا۔ ان کا کافی غیر مطبوعہ کلام ہے جس میں آشوبِ سفر اور جزائے نعت شامل ہیں۔ طباعت کے مراحل میں ہے خادم رزمی کا زیادہ تر کلام اوراق، فنون ،سیپ، الکلام اور ادب لطیف میں شائع ہوتا رہا ہے۔ انہیں اکادمی ادبیات کی طرف سے پنجابی شعری مجموعہ ”من ورتی“ پر ”وارث شاہ ہجرہ ایوارڈ 1994ء “اور خواجہ فرید ایوارڈ 1998ء بھی مل چکا ہے۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے 2008ء میں ڈاکٹر ممتاز کلیانی کی زیرِ نگرانی امتیاز احمد نے ”خادم رزمی۔ بحیثیت شاعر“” ایم۔ اے کے لیے مقالہ لکھا ۔2006ء میں قلندر عباس نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ڈاکٹر روبینہ ترین کی زیرِنگرانی ”خادم رزمی۔ شخصیت و فن“ کے نام سے ایم۔ فل کے لیے مقالہ لکھا۔
وفات
۔۔۔۔۔۔
خادم رزمی 02 جنوری 2006ء کو وفات پا گئے۔

غزل
۔۔۔۔۔۔
آن پہنچے ہیں یہ کہاں ہم لوگ
اب زمیں ہیں نہ آسماں ہم لوگ

کل یقیں بانٹتے تھے اوروں میں
اب ہیں خود سے بھی بد گماں ہم لوگ

کن ہواؤں کی زد میں آئے ہیں
ہو گئے ہیں دھواں دھواں ہم لوگ

چپ تو پہلے بھی جھیلتے تھے مگر
اس قدر کب تھے بے زباں ہم لوگ

کب میسر کوئی کنارہ ہو
کب سمیٹیں گے بادباں ہم لوگ

بن گئے راکھ اب نجانے کیوں
تھے کبھی شعلۂ تپاں ہم لوگ

ہم کو جانا تھا کس طرف رزمیؔ!
اور کس سمت ہیں رواں ہم لوگ

غزل
۔۔۔۔۔۔
ہاتھ کٹتے ہیں جہاں سینہ و سر کھلتے ہیں
ایسے ماحول میں ہم اہل ہنر کھلتے ہیں

دن نکلتا ہو جہاں خوف کا نیزہ بن کر
ایسی بستی میں کہاں رات کو در کھلتے ہیں

کیسے آسیب کا سایہ ہے مرے رستے پر
گرد چھٹتی ہے نہ اسرار سفر کھلتے ہیں

ہم نے اک عمر گزاری ہے انہی خوابوں میں
اب قفس ٹوٹتا ہے اور ابھی پر کھلتے ہیں

رخ پہ گلشن کے کھلیں جس کے دریچے اکثر
سوئے صحرا بھی اسی شہر کے در کھلتے ہیں

جن زمینوں پہ کھرے لوگ بسا لیں خود کو
راستے سیل بلا کے بھی ادھر کھلتے ہیں

اہل ساحل سے کہو کشف کی صورت رزمیؔ
موج کھلتی ہے کبھی ہم پہ بھنور کھلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش و ترسیل : آغا نیاز مگسی

Leave a reply