سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی ایسے مسائل ہیں جن کو اعتدادل پر لائے بغیر ملک کی سالمیت اور بقاء ناممکن ہے مقتدر حلقوں اور قومی سلامتی کے ضامن اداروں کو بغیر وقت ضائع کئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے بے معنی تنازعات کو دفن کرنے کا فیصلہ صادر کرنا چاہئے اور معاشی سدھار پیدا کر لے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔گزشتہ ادوار کا اگر جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ نوازشریف کے دور اقتدار میں سی پیک، توانائی اور صنعتی ترقی کے اقدامات کے بل بوتے پر پاکستان ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طورپر ترقی کے راستے پر گامزن تھا ۔
ترقی کے سفر میں ناعاقبت اندیش رختہ ڈال کر نہ جانے کیوں وطن عزیز کو نہ ختم ہونے والے عدم استحکام کا شکار کر دیا گیا اور اب نہ جانے کون سے پوشیدہ ہاتھ ہیں جو ملک کی سیاسی قوتوں کو منتشر رکھ کر اپنے نادیدہ عزائم کی تکمیل پر بضد ہیں۔ چند دن قبل وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے پریشر کو زائل کرنے کے لئے قومی سطح پر کفایت شعاری کا اعلان کیا لیکن ان پر عمل ہوا یا ہوتا نظر آرہا ہے؟ کیا کابینہ کے براتی حجم کو کم کرنے کا سوچا؟ –
کیا ہم نے اعلیٰ افسران کی نازبرداریوں کے اخراجات کو کم کے اقدامات کئے؟ کیا ہم نے پروٹوکول کے نام پر درجنوں گاڑیوں کا سفر کم کیا؟ کیا ہم نے پی آئی اے، سٹیل ملزم، حتیٰ کے اسمبلیوں میں من پسند عزیزوں کی غیر ضروری بھرتیوں کو روکا؟ نہیں بالکل نہیں حکومت کی بدانتظامی اور بے خبری کا یہ عالم ہے کہ ہم سفارش اور رشوت کی کشش میں دیہی علاقوں کے کالجوں میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کو نظرانداز کر دیا سرکاری کالج ویران ہو گئے کفایت شعاری اور انتظامی صلاحیت کیا باقی رہ گئی ہے؟-
مقتدر حلقوں کو نیوٹرل نیوٹرل کی گردان سے نکل کر بدانتظامی اور عدم استحکام کے گرداب میں پھنسے وطن عزیز کو ترقی کی منزل کی جانب گامزن کرنا ہوگا خواہ اس کے لئے قومی حکومت کا حربہ ہی کیوں نہ آزمانا پڑے ملک میں اس وقت صرف سیاسی بیانات کا طوفان اور واقعات کا ایک ریلا ہے ان حالات میں کچھ بھی آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ عوام جعلی نعرے سن سن کر تھک چکے ہیں داخلی معاملات ہوں یا خارجہ پالیسی دونوں فکر انگیز ہیں۔ عوام ان مداریوں سے تنگ آچکے ہیں۔ تجزیہ: شہزاد قریشی