کہا کریں گے کبھی ہم عجیب لڑکی تھی خموش رہتی تھی

گہرے سمندروں کی طرح وہ آنکھیں جن سے نری شاعری بکھرتی تھی

محمود شام

اصل نام:محمد عارف محمود
تاریخ پیدائش:05 فروری 1940ء
جائے پیدائش:بھارت
زبان:اردو
مستقل رہائش : گلشن اقباک کراچی پاکستان

اصناف:شاعری، نثر، تنقید، کالم
تصنیفات
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)آخری رقص
۔ (2)نوشتۂ دیوار
۔ (3)چہرہ چہرہ میری کہانی
4: بیٹیاں پھول ہیں
5: ملا نصیر الدین کے پرانے قصے نئے روپ میں
6: ایاں ایاں یو یو

مستقل رہائش : گلشن اقبال کراچی

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظر کسی کی نظر سے نہیں الجھتی تھی
وہ دن بھی تھے کہ یوں ہی زندگی گزرتی تھی
ستارے اپنے لیے خواہشوں کی منزل تھے
حسین رات ہمیں چاندنی پلاتی تھی
رہے تھے اپنی ہواؤں میں ایک عمر مگر
بکھر پڑے تو ہر اک گام اپنی ہستی تھی
یہی بہت تھا کہ کچھ لوگ آ کے کہتے تھے
وہ میرا ذکر بہت مخلصانہ کرتی تھی
نظر میں پیار بھی تھا اور تکلفات بھی تھے
کہا کریں گے کبھی ہم عجیب لڑکی تھی خموش رہتی تھی
گہرے سمندروں کی طرح
وہ آنکھیں جن سے نری شاعری بکھرتی تھی
اسے ملے تو پھر اس بات کا سراغ ملا
ہمیں یہ زندگی کیوں اتنی پیاری لگتی تھی
نہ جانے کتنے ہی صفحوں پہ دل بکھیرا مگر
نہ کہہ سکے تو وہ اک بات ہی جو کہنی تھی

غزل
۔۔۔۔۔۔
جانے اے دوست کیا ہوا ہم کو
تیرا غم بھی نہ اب رہا ہم کو
ہم نہ آئیں کہیں یہ ممکن ہے
آپ دیں تو سہی صدا ہم کو
خشک پتے ہیں ہم نہ جانے کب
لے اڑے باؤلی ہوا ہم کو
کب سے ہیں ہم تو گوش بر آواز
کچھ تو اے خامشی سنا ہم کو
کس لیے خار ہوں تلاش میں ہم
خود ہی ڈھونڈے گا راستہ ہم کو
یوں ہی آ آ کے لپٹے جاتی ہے
جانے کہتی ہے کیا صبا ہم کو
ہو گئی دور سارے دن کی تھکن
شامؔ سے وہ سکوں ملا ہم کو

غزل
۔۔۔۔۔۔
رات آئی ہے گزر جائے گی
روشنی بن کے بکھر جائے گی
ہاں یوں ہی چاند کو تکتے رہنا
چاندنی دل میں اتر جائے گی
لذت درد بچا کر رکھنا
نکہت جاں ہے بکھر جائے گی
کرب کی آگ لگا لو دل سے
کل خدا جانے کدھر جائے گی
اسی رستے پہ بہا اپنا لہو
اسی رستے سے سحر جائے گی
جسم کٹنا تھا یہ معلوم نہ تھا
یوں مری ذات بکھر جائے گی
میں نے جی بھر کے تجھے دیکھنا ہے
اب تری شکل نکھر جائے گی

Shares: