چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

اردو کے ممتاز غزل گو شاعر جمال احسانی 21 اپریل 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے تھے۔ 1970ء کی دہائی میں انہوں نے شاعری کا آغاز کیا اور بہت جلد اردو کے اہم غزل گو شعرا میں شمار ہونے لگے۔جمال احسانی کی ابتدائی تربیت احسان امروہوی جیسے روایتی استاد کے ہاتھوں ہوئی۔ انھیں سلیم احمد اور قمر جمیل جیسے جدید شعراء کا قرب بھی حاصل رہا۔

اس قدیم اور جدید شاعری کے ملاپ سے ان کی شاعری ایک طرف تو روایت کا رنگ لئے ہوئے ہے وہیں اس میں جدیدیت کا تڑکا بھی ہے جو اس شاعری کو دو آتشہ بنا دیتا ہے۔ جمال احسانی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے ۔ اس صنف میں محاورات کی بر جستگی، زبان کی پختگی اور باہمی ربط ان کی غزل کا شعار ہیں۔

جمال کے یہاں ہر جذبہ اپنی پوری شدت سے موجود ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں سمندر، صحرا، سفر، آسمان، تنہائی اور وصل اپنے پورے تاثر کے ساتھ محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ایک بہت بڑے کینسوس پر ان کی شاعری کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ ان کے خوابوں اور امنگوں کی عکاسی کرتی ہے-

ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ ان تینوں مجموعوں پر مشتمل ان کی کلیات، کلیات جمال کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔

10 فروری 1998ء کو اردو کے ممتاز غزل گو شاعر جمال احسانی کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں گلستان جوہر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

ان کے منتخب اشعار ملاحظہ ہو:

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
………
سمندروں کا سفر آج تو مزہ دے گا
ہوا بھی تیز ہے کشتی بھی بادبانی ہے
………….
آنکھوں آنکھوں کی ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہو ئے صحراؤں کی!
………….
مقصود صرف ڈھونڈنا کب تھا تجھے ،سو میں
جس سمت تو نہیں تھا ادھر بھی نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھکن بہت تھی مگر سایہءِ شجر میں جمال
میں بیٹھتا تو مرا ہمسفر چلا جاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگاہ میں چراغ جلاتے ھی ھو گیا ۔۔۔ !!
دنیا مرے حساب سے بڑھ کر خراب ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

Shares: