سزائیں دیتی ہے مکر و فریب کی دنیا
صداقتوں کا ہے اظہار اک خطا کی طرح
سیدہ فرحت
یوم وفات: 11؍فروری 2003
اصل نام کرامت فاطمہ اور تخلص سیدہ فرحت تھا۔
یکم؍اپریل 1938ء کو بھوپال مدھ پردیش میں پیدا ہوئیں۔ آٹھویں کلاس تک بھوپال میی سلطانیہ اسکول میں تعلیم پائی جہاں ان کے والد محکمہ پولیس کی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اپنے ماموں ڈاکٹر عابد حسین کے پاس جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی آگئیں اور ان کی نگرانی میں گھر پر ہی تعلیم حاصل کی۔ بارہ سال کی عمر سے شاعری شروع کی، جعفر علی خاں اثر سے کلام پر کچھ عرصے تک اصلاح لی۔ ان کا کلام ماہنامہ ’’شاہراہ‘‘، ’’نئ روشنی‘‘، ’’آجکل‘‘ آور دیگر رسائل میں شائع یوتا رہا۔
جب جامعہ ملیہ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ قائم ہوئ تو اس کی ممبر بنیں۔ شادی کے بعد علی گڑھ منتقل ہوگئیں۔ وہاں 1962ء میں خواتین کی ادبی انمجمن ’’بزم ادب‘‘ قائم کی جو آج بھی فعال ہے۔ فلاحی کاموں میں بھی سرگرم رہیں۔
11؍فروری 2003ء کو علی گڑھ میں انتقال کر گئیں۔
ان کے دو شعری مجموعے ’’بزم خیال‘‘ اور’’سازحیات‘‘ ہیں اور بچوں کے لئے نظموں کی کتاب ’’بچوں کی مسکان‘‘ہے۔ ان کی بیٹی نے سن 2016ء میں’’کلیات سیدہ فرحت‘‘ شائع کی۔
بحوالہ ریختہ ڈاٹ کام
سیدہ فرحتؔ صاحبہ کی شاعری سے انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحر ہستی میں تلاطم کبھی ایسا تو نہ تھا
خیر و شر کا یہ تصادم کبھی ایسا تو نہ تھا
کھوجتا رہتا تھا انسان وہ گم گشتہ بہشت
خود بناتا ہے جہنم کبھی ایسا تو نہ تھا
بھیجے ہر دور میں جس نے کہ پیمبر اپنے
وہ خدا ذہنوں سے گم ہے کبھی ایسا تو نہ تھا
ساز دل جو کبھی نغمات طرب گاتا تھا
اب ہے محروم ترنم کبھی ایسا تو نہ تھا
علم کے گوہر نایاب جو دیتا تھا کبھی
اب ہے خوناب وہ قلزم کبھی ایسا تو نہ تھا
قتل انسان تو اب روز کا معمول ہوا
دل سے مفقود ترحم کبھی ایسا تو نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ فرش خاک پہ ٹھہریں گے نقش پا کی طرح
رواں دواں ہیں فضاؤں میں ہم ہوا کی طرح
پکار وقت کی نزدیک تھی مگر ہم نے
سنا ہے دور سے آتی ہوئی صدا کی طرح
سزائیں دیتی ہے مکر و فریب کی دنیا
صداقتوں کا ہے اظہار اک خطا کی طرح
خدا کرے تجھے احساس درد و غم نہ رہے
دعائے خیر وہ دیتے ہیں بد دعا کی طرح
نہ ہو سخن میں جو شان پیمبری ممکن
خموش رہ کے بھی دیکھیں ذرا خدا کی طرح
جھلک دکھائے کہیں تو امید کا سورج
ہجوم یاس ہے امڈی ہوئی گھٹا کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوز دل پاس وفا درد جگر ہے کہ نہیں
جو تھا مسجود ملائک وہ بشر ہے کہ نہیں
فرش گیتی سے سر عرش پہنچنے والے
کوچۂ دل سے تری راہ گزر ہے کہ نہیں
گرم بازار ہے ہر سمت ہوس خیزی کا
جذبۂ عشق کا بھی دل پہ اثر ہے کہ نہیں
جس میں ہو جلوہ فگن کون و مکاں کی وسعت
اہل دانش میں وہ انداز نظر ہے کہ نہیں








