اسلام آباد: اسامہ ستی قتل کیس میں مجرم قرار دیے گئے پولیس اہل کاروں نے سزا کا فیصلہ چیلنج کردیا۔
باغی ٹی وی: کیس میں سزائے موت پانے والے 2 پولیس اہل کاروں نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا پولیس اہلکاروں کی اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ آج سماعت کرے گا ۔
اسامہ ستی قتل کیس، فیصلہ آ گیا،عدالت نے ملزمان کو سنائی سزا
درخواست میں پولیس اہلکار افتخار احمد اور محمد مصطفی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے درخواست مزید کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ قانون سے متصادم ہے ، کالعدم قرار دیا جائے ۔ ٹرائل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزا کو ختم کر کے مقدمے سے بری کیا جائے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں اینٹی ٹیررازم اسکواڈ (اے ٹی ایس) پولیس کے اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان اسامہ ستی قتل کیس میں عدالت نے 2 ملزمان کو سزائے موت اور 3 کو عمر قیدکی سزا سنائی تھی
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے اسامہ ستی کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا تھا عدالت نے 31 جنوری کو ٹرائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، کیس کا ٹرائل دو سال اور ایک ماہ جاری رہا،اسامہ ستی قتل کیس میں سزا پانے والے تمام افراد کا تعلق اینٹی ٹیررازم اسکواڈ سے ہے۔
ملزم افتخار احمد اور محمد مصطفیٰ کو سزائے موت جب کہ سعید احمد، شکیل احمد اور مدثر مختار کو عمرقیدکی سزاسنائی گئی، افتخار احمد اور محمد مصطفیٰ پر ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا-
اسامہ ستی قتل کیس،گواہان پر دوبارہ جرح کی درخواست سماعت کیلیے مقرر
واضح رہےکہ 22 سالہ اسامہ ندیم ستی کی تعلق کوٹلی ستیاں سے تھا اور وہ ایف ایس سی کے طالبعلم تھے اور اسلام آباد میں ہی رہائش پذیر تھے۔ وہ اپنے تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھےاسامہ ستی کو جنوری 2021 کو اسلام آباد میں سری نگر ہائے وے پر رات ڈیڑھ بجے اینٹی ٹیررازم اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
ابتدائی طور پر پولیس نے واقعےکو ڈکیتی کا رنگ دیا تھا،بعد ازاں پانچ پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے کر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی اور قتل کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی نوجوان طالب علم کی ہلاکت کے واقعے کی فوری جوڈیشل انکوائری کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس واقعے پر پولیس کا مؤقف تھا کہ ڈکیتی کی کال چلنے کے بعد مشکوک معلوم ہونے والی کالے شیشوں والی گاڑی کو اے ٹی ایس اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی اور گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کے نتیجے میں اسامہ ستی کی ہلاکت ہوئی تھی۔
پولیس کے مطابق فائرنگ کے واقعے کے وقت مقتول گاڑی میں اکیلا تھا اور تھانہ رمنا کی جانب سے فائرنگ کے واقعے میں ملوث پانچ اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
اسامہ ستی قتل کیس، وفاقی کابینہ کا اہم فیصلہ، وزیراعظم کا دبنگ اعلان
اسامہ ستی قتل کیس ، پولیس افسران ملزمان کو بچانے کے لیے سرگرم
مقتول کے والد ندیم ستی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں ان پانچ اہلکاروں کو نامزد کیا گیا تھا اور یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’اسامہ نے گذشتہ روز ان سے ذکر کیا تھا کہ ان کی پولیس کے کچھ اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی جس پر انھوں نے یہ دھمکی دی تھی کہ ہم تمھیں مزہ چکھائیں گے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق اسامہ کی گاڑی پر مختلف اطراف سے تقریباً 17 گولیاں چلائی گئیں جبکہ ملزمان پر دفعہ 302 اور دہشتگردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اسامہ ستی کی مدعیت میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’دو جنوری کی رات دو بجے کے قریب میرا بیٹا اپنے دوست کو ایچ الیون نزد نسٹ یونیورسٹی چھوڑنے گیا۔ واپسی پر مذکورہ بالا پولیس اہلکاروں نے اس کی گاڑی کا پیچھا کیا اور گاڑی کو ٹکر مارنے کے بعد فائرنگ کی جس سے میرا بیٹا موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔‘
اس واقعے کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ایک ٹویٹ میں واقعے کی ابتدائی تفصیلات بتائی گئی تھیں۔ ان کے مطابق پولیس کو رات کو کال ملی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کر رہے ہیں، اے ٹی ایس پولیس کے اہلکاروں نے جو علاقہ میں گشت پر تھے، مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس نے کالے شیشوں والی مشکوک گاڑی کوروکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی پولیس نے متعدد بار جی 10 تک گاڑی کا تعاقب کیا نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں میں فائر کیے، بدقسمتی سے دو فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔‘
جبکہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے ریمارکس دیے تھے کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ملزمان سے ملی ہوئی ہے اور اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پولیس فائرنگ سے جاں بحق اسامہ سٹی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی،کتنی گولیاں لگیں؟
اسامہ ستی کی ہلاکت کے مقدمے کی سماعت کے لیے پاکستان کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلقہ قائمہ کمیٹی نے اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کہا تھا کہ وہ متاثرہ خاندان کو تحقیقاتی عمل کا حصہ بنائیں۔
اسامہ ستی کے لواحقین نے قائمہ کمیٹی میں قتل کی تحقیقات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ گاڑی کے چاروں اطراف سے گولیاں چلائی گئیں جبکہ گاڑی کے اندر خون کے نشانات نہیں ہیں۔
اُنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ گاڑی کو تھانے میں کھڑا کر کے گولیاں ماری گئیں جو اس مقدمے کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ لواحقین نے قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اُنھیں نہ جے آئی ٹی میں بلایا گیا اور نہ ہی ابھی تک جوڈیشل انکوائری کے سامنے طلب کیا گیا۔
جس طرح تحقیقات کروانا چاہیں حکومت تیار ہے، شیخ رشید کا اسامہ ستی کے والد کو فون
پولیس اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے،مقتول اسامہ ستی کے والد کی درخواست








