جب آنکھ سے آنسو چھلک پڑے

کیسے کیسے لوگ/آغا نیاز مگسی

غصہ اور جذبات شتر بے مہار اور بے لگام مست گھوڑے اور ہاتھی کی طرح ہوتے ہیں جن پر قابو پانا انسان کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے غصے پر تو بہرحال قابو پایا جاتا سکتا ہے خواہ وہ بڑی مشکل سے ہی سہی لیکن میرے خیال میں جذبات پر قابو پانا کسی کے بس یا اختیار میں نہیں ہے ۔ خوشی ، غم ، محبت ، فتح و شکست اور ہجر و وصال کے کچھ ایسے جذبات اور لمحات ہوتے ہیں جب انسان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑتے ہیں یا اشک جاری ہو جاتے ہیں ۔ میرے ساتھ بھی آج ایسا ہی ہوا جب 2 مارچ 2023 کے دن دو پہر کو میں اپنی بچی کو اس کی چھٹی کے وقت نرسنگ کالج سے لانے کیلئے گھر سے جا رہا تھا تو ڈپٹی کمشنر نصیر آباد کے دفتر ڈیرہ مراد جمالی میں” اللہ ہو” چوک شہید بینظیر بھٹو پریس کلب کے سامنے چند بلوچ نوجوانوں کو بلوچوں کی ثقافت کے عالمی دن کی مناسبت سے بلوچوں کے روایتی لباس میں ملبوس بلوچی گیت گاتے اور بلوچی رقص کرتے ہوئے دیکھا تو بے اختیار میرے قدم رک گئے ۔ میں اپنے ارد گرد کی دنیا سے بیگانہ اور بے نیاز ہو کر بلوچی رقص اور گیت کے منظر اور پس منظر میں کھو گیا اور مجھ پر کچھ ایسی کیفیت طاری ہو گئی کہ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری گئے یہ میرے دلی جذبات کے عکاس تھے جن پر میں سخت کوشش کے باوجود قابو نہ پا سکا اور میرےدل و دماغ میں یہ خیال آنے لگا کہ ہم بلوچ کیسی خوب صورت ثقافت کے وارث اور امین ہیں اور پھر یہ خیال بھی دل میں آیا کہ دنیا کی تمام اقوام کی ثقافت خوب صورت ہوتی ہیں لیکن یہ قدرتی یا فطری امر ہے کہ ہر قوم یا ہر انسان کو اپنی ثقافت پر ہی فخر ہوتا ہے۔

قوموں کی ثقافت کے حوالے سے میرے دل میں دو صحافیوں کیلئے بہت بڑا احترام ہے ایک سندھ کے ممتاز صحافی علی قاضی صاحب اور بلوچی کے نامور صحافی اقبال بلوچ صاحب ہیں ۔ علی قاضی نے روزنامہ کاوش ، کے ٹی این نیوز اور کشش ٹی وی کے ذریعے سندھی ثقافت کو اجاگر اور محفوظ کرنے کی غرض سے ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار کے روز ” سندھی کلچرل ڈے” منانے کی روایت ڈالی اور اس کے دو تین سال بعد علی قاضی کی تقلید کرتے ہوئے اقبال بلوچ نے بلوچی چینل "وش نیوز” کے ذریعے 2 مارچ کو ” بلوچ کلچرل ڈے” منانے کی روایت قائم ڈالی ۔ علی قاضی کے سندھی قوم پر اور اقبال بلوچ کے بلوچ قوم پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اپنی اپنی قومی ثقافت کو زندہ اور محفوظ رکھنے کی روایت ڈالی ورنہ ان کی ثقافت برائے نام رہ گئی تھی ۔ کسی بھی قوم کی ثقافت کو زندہ رکھنے اور اجاگر کرنے میں حکمرانوں سے زیادہ دانشوروں ، گلوکاروں ، نوجوانوں جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں اور عام افراد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔

Shares: