لاہورمیں ’’سیاسی قیامت صغریٰ‘‘تجزیہ : شہزاد قریشی

0
64
qureshi

گذشتہ سے پیوستہ روز لاہور کے زمان پارک میں پاکستان تحریک انصاف اور پولیس کے درمیان جو ہنگامہ آرائی مشاہدہ کی گئی اس کے دوران ایک کارکن جاں بحق ہوا، متعدد گرفتار کیے گئے، خواتین پر بھی واٹر اور لاٹھی چارج کیا گیا، عام شہریوں کو ٹریفک جام کے عذاب میں مبتلا کیا گیا ، گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے شروع کی گئی اس کی انتخابی مہم کے سامنے دفعہ 144کے نفاذ کی دیوار کھڑی کر دی گئی۔ ظاہر ہے کہ حکومت کی طرف سے تو اس قابل افسوس صورت حال کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر ہی عائد کی جا رہی ہے لیکن حقائق اس کی تائید سے قاصر ہیں۔ اس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ پولیس ذرائع کے مطابق ’’ہلاک ہونے والا شخص ایک پرائیویٹ گاڑی میں ہسپتال لایا گیا تھا‘‘۔ حکومت نے یہ حیرت انگیز دلیل بھی پیش کی ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین مذکورہ ریلی میں شرکت کے لیے اپنی رہائش گاہ سے باہر نہ نکلے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے شاید اسی تناظر میں یہ ارشاد فرمایا کہ اداروں کی رپورٹ کے بعد لاہور میں دفعہ 144نافذ کی گئی، عمران خان قانون سے بھاگ رہے ہیں اور اب ان کو گرفتار کر کے لانا پڑے گا۔ ایک عامی بھی ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ لاہور میں ہونے والی مذکورہ ہنگامہ آرائی اس لحاظ سے تو کوئی نیا واقعہ نہیں کہ ماضی میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہو چکے البتہ اس حوالہ سے یہ واقعہ بلاشبہ فکر انگیز ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیے جانے کے بعد کسی پارٹی کی انتخابی ریلی اور مہم پر ایسی یلغار نہایت افسوسناک بلکہ شرمناک ہے۔

ادھر ایسے ہی حالات کا سامنا مختلف شہروں(لاہور، حیدر آباد، سکھر، گھوٹکی، ملتان اور مظفر گڑھ وغیرہ )میں ان خواتین کو بھی رہا جنہوں نے عالمی یوم خواتین کے سلسلہ میں ریلی اور جلوس کا اہتمام کیا تھا۔ اس نشاندہی کی چنداں ضرورت نہیں کہ پولیس کی ایسی کارروائی سے مہذب دنیا میں وطن عزیز کا وقار اور شناخت مجروح ہوئی۔ اس روز یوں محسوس ہوا جیسے لاہور میں ’’سیاسی قیامت صغریٰ ‘‘ برپا ہو گئی ہے، خیال ہے کہ ماضی کی کسی کہانی اور داستان کو سننے اور سنانے سے گریز کرتے ہوئے درپیش حالات اور احوال کی اصلاح کی طرف توجہ دی جانی چاہیے اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ذمہ داری خود حکومت پر عائد ہوتی ہے جس میں سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا ۔ فی الجملہ کہا جا سکتا ہے کہ پاک سرزمین کو پولیس سٹیٹ نہ بنایا جائے اور یہ بات ہمہ وقت ذہن نشین رکھی جائے کہ قوانین عوام کے لیے ہوتے ہیں، عوام قوانین کے لیے نہیں ہوتے۔

Leave a reply