اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
نوشی گیلانی پاکستان سے تعلق رکھنے والی اردو زبان کی مقبول ترین شاعرہ ہیں۔ ان کا اصل نام نشاط گیلانی ہے۔ وہ 14 مارچ 1964 میں پاکستان کے شہر بہاولپور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد مسعودگیلانی پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ نوشی نے اپنی تعلیم بہاولپور میں ہی مکمل کی۔ انہیں بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔
ان کا پہلا مجموعہ ”محبتیں جب شمار کرنا“ منظرِ عام پرآیا تو اسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ 1995 میں نوشی کی شادی فاروق طراز کے ساتھ ہوئی اور وہ سان فرانسیسکو، امریکا چلی گئیں مگرکچھ عرصے بعد اُن سے علیحدگی ہوگئی۔
نوشی اسلامیہ یونیورسٹی، بہالپور میں اردو کی اُستاد کی حیثیت سے کام کرتی رہیں۔ 1997 میں نوشی کا دوسرا مجموعہ ”اداس ہونے کے دن نہیں“ منظرِ عام پر آیا۔ 25 اکتوبر 2008 میں نوشی سڈنی میں مقیم اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کے سابق جنرل سکریٹری سعید خان(جو خود بھی شاعر ہیں) کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور سڈنی، آسٹریلیا چلی گئیں۔
انہوں نے پاکستانی گلوکار پٹھانے خان کو خراجِ تحسین پیش کیا جسے پاکستان نیشنل کونسل آف دا آرٹ(PNCA) نے اسپانسر کیا۔ امریکا میں قیام کے دوران ان کے تجربات و مشاہدات بھی ان کی شاعری سے جھلکتے ہیں۔ ”ہوا“ اور ”محبت“ کے الفاظ مضبوط استعارے کے طور پہ ان کی شاعری میں بہت استعمال ہوئے ہیں۔اسی بنا پر انھیں ہوا کا ہم سُخن بھی کہا جاتا ہے۔
ان کی شاعری کے سات مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی بہت سی نظموں کے انگریزی،ملائی اور یونی زبانون میں ترجمے بھی ہو چکے ہیں۔نوشی گیلانی نے آسٹریلین شاعر Les Murray کی شاعری کو اردو میں ترجمہ کیا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے خود بھی انگریزی میں شاعری(7) کی ہے۔ان کی مشہور نظم ہے،To Catch Butterflies ہے۔
نوشی گیلانی اردو اکیڈمی آسٹریلیا کی شریک بانی بھی ہیں جس کی بنیاد 2009 میں رکھی گئی۔ یہ اکیڈمی اردو شاعری و ادب کی ترویج کے لیے ہر ماہ سڈنی میں ایک نشست کا اہتمام کرتی ہے۔ ان کی نئے مجموعہ ”ہوا چپکے سے کہتی ہے“(2011) کو اس قدر پزیرائی ملی کہ اردو بازار میں آنے کے دو گھنٹوں میں ہی پہلا ایڈیشن لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ خرید لیا۔
اعزازات
خواجہ فرید ایوارڈ
تصانیف
۔۔۔۔۔۔
نوشی گیلانی کی شائع ہونے والی کتابیں درج ذیل ہیں۔
1:محبتیں جب شمار کرنا (1993)
2:اداس ہونے کے دن نہیں(1997)
3:پہلا لفظ محبت لکھا(2003)
4:ہم تیرا انتظار کرتے رہے (2008)
5:نوشی گیلانی کی نظمیں(2008)
6:اے میرے شریکِ رسال جاں (2008)
7: ہوا چپکے سے کہتی ہے (2011)
اشعار
۔۔۔۔۔۔
اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
بند ہوتی کتابوں میں اڑتی ہوئی تتلیاں ڈال دیں
کس کی رسموں کی جلتی ہوئی آگ میں لڑکیاں ڈال دیں
میں تنہا لڑکی دیار شب میں جلاؤں سچ کے دیے کہاں تک
سیاہ کاروں کی سلطنت میں میں کس طرح آفتاب لکھوں
ہمارے درمیاں عہدِ شبِ مہتاب زِندہ ہے
ہَوا چْپکے سے کہتی ہے ابھی اِک خواب زِندہ ہے
نوشی گیلانی کی ایک نظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا کو آوارہ کہنے والو
کبھی تو سوچو، کبھی تو لکھو
ہوائیں کیوں اپنی منزلوں سے بھٹک گئی ہیں
نہ ان کی آنکھوں میں خواب کوئی
نہ خواب میں انتظار کوئی
اب ان کے سارے سفر میں صبح یقین کوئی
نہ شام صد اعتبار کوئی
نہ ان کی اپنی زمین کوئی نہ آسماں پر کوئی ستارہ
نہ کوئی موسم نہ کوئی خوشبو کا استعارہ
نہ روشنی کی لکیر کوئی، نہ ان کا اپنا سفیر کوئی
جو ان کے دکھ پر کتاب لکھے
مسافرت کا عذاب لکھے
ہوا کو آوارہ کہنے والو
کبھی تو سوچو!
غزل
۔۔۔۔۔۔
کچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
اس نے ہنس کے دیکھا تو مسکرا دیے ہم بھی
ذات سے نکلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
ہجر کی تمازت سے وصل کے الاؤ تک
لڑکیوں کے جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
بات جیسی بے معنی بات اور کیا ہوگی
بات کے مکرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
زعم کتنا کرتے ہو اک چراغ پر اپنے
اور ہوا کے چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
جب یقیں کی بانہوں پر شک کے پاؤں پڑ جائیں
چوڑیاں بکھرنے میں دیر کتنی لگنی ہے
غزل
۔۔۔۔۔۔
وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے
کہ جس طرح کوئی لہجہ بدلتا جاتا ہے
یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں
مگر وہ شخص تو رستہ بدلتا جاتا ہے
رتیں وصال کی اب خواب ہونے والی ہیں
کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے
رہا جو دھوپ میں سر پر مرے وہی آنچل
ہوا چلی ہے تو کتنا بدلتا جاتا ہے
وہ بات کر جسے دنیا بھی معتبر سمجھے
تجھے خبر ہے زمانہ بدلتا جاتا ہے
غزل
۔۔۔۔۔۔
دل کی منزل اس طرف ہے گھر کا رستہ اس طرف
ایک چہرہ اس طرف ہے ایک چہرہ اس طرف
روشنی کے استعارے اس کنارے رہ گئے
اب تو شب میں کوئی جگنو ہے نا تارا اس طرف
تم ہوا ان کھڑکیوں سے صرف اتنا دیکھنا
اس نے کوئی خط کسی کے نام لکھا اس طرف
یہ محبت بھی عجب تقسیم کے موسم میں ہے
سارا جذبہ اس طرف ہے صرف لہجہ اس طرف
ماں نے کوئی خوف ایسا رکھ دیا دل میں مرے
سچ کبھی میں بول ہی پائی نہ پورا اس طرف
ایک ہلکی سی چبھن احساس کو گھیرے رہی
گفتگو میں جب تمہارا ذکر آیا اس طرف
صرف آنکھیں کانچ کی باقی بدن پتھر کا ہے
لڑکیوں نے کس طرح روپ دھارا اس طرف
اے ہوا اے میرے دل کے شہر سے آتی ہوا
تجھ کو کیا پیغام دے کر اس نے بھیجا اس طرف
کس طرح کے لوگ ہیں یہ کچھ پتا چلتا نہیں
کون کتنا اس طرف ہے کون کتنا اس طرف