اس وقت ملک کی بائیس کروڑ عوام آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کے رحم و کرم پر ہے اسے ہی جمہوریت کے ثمرات کہتے ہیں۔ سیاست میں تشدد ہلاکو خان اور چنگیز خان کا مذہب ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم جماعتوں نے عدلیہ کے کچھ ججوں کیخلاف طبل بھی بجا دیا ہے۔ عام آدمی حکومت کی جارحانہ حکمت عملی سے بے حد پریشان ہے۔ قوم مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہے حیرانگی کی بات ہے جمہوریت، قانون کی حکمرانی، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ لگانے والے آئین کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ آئین کو سیاسی گلیاروں میں گھر کی لونڈی سمجھ لیا ہے۔ سب جانتے ہوئے کہ آئین شکن کی آئین میں کیا سزا ہے ؟زیادہ عرصہ نہیں گزرا سابق چیف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف مرحوم کو انہی سیاستدانوں نے آئین شکنی پر آرٹیکل 6 لگا کر مقدمہ چلایا پھر انہیں اسی مقدمہ میں سزائے موت سنائی گئی۔ آج وہی سیاستدان آئین شکنی پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ انہی سیاسی جماعتوں میں وہ سیاستدان موجود ہیں جنہوں نے جمہوریت کی خاطر آمریت کے دور میں جیلیں کاٹیں کوڑے کھائے بدترین تشدد کا بھی سامنا کیا سیاسی جماعتوں میں ایسے سیاستدانوں کی تعداد بہت کم رہ چکی ہے جو آئین اور قانون جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے سیاستدان دعویدار تو جمہوریت کے ہیں مگر غیر جمہوری اعمال میں مصروف ہیں
حیرانگی عمران خان پر بھی ہے وہ ملک کے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی تاحیات نااہلی پر بھنگڑے ڈال رہے تھے اور آج اپنے اوپر بنائے سینکڑوں مقدمہ کا رونا رو رہے ہیں ایک دوسرے خلاف جنگ میں مصروف سیاستدانوں نے اس ملک اور عوام کو آج یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ لائنوں میں لگے آٹا لینے کی خاطر وہ مر رہے ہیں کیا یہ جمہوریت کے ثمرات ہیں عوام ووٹ بھی لائن میں لگ کر دے اور آٹا بھی لائنوں میں لگ کر لے؟ اگر سیاسی جماعتوں نے ماضی سے سبق نہ سیکھا تو تو بڑا نقصان ہونے کا خطرہ موجود ہے سیاسی جماعتیں تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرتی سیاسی جماعتیں ملکوں اور قوموں کو ان کی مشکلات سے نکالتی ہیں اور انہیں آگے بڑھنے کے راستے دکھاتی ہیں۔ لوگ مہنگائی کی وجہ سے بلبلا اٹھی ہیں اس وقت ایک راستہ مذاکرات کا راستہ باقی تمام راستے غلط ہیں۔ اس ملک اور عوام کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہلاکو خان اور چنگیز خان کے راستے کا انتخاب ہرگز ہرگز غلط ہے۔







