ہم اپنے اس مزاج میں کہیں بھی گھر نہ ہو سکے،کسی سے ہم ملے نہیں کسی سے دل ملا نہیں

0
49

ہم اپنے اس مزاج میں کہیں بھی گھر نہ ہو سکے
کسی سے ہم ملے نہیں کسی سے دل ملا نہیں

افتخار امام صدیقی

افتخار امام صدیقی، 19؍نومبر 1947ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اعجاز صدیقی تھے اور دادا سیمابؔ اکبر آبادی۔ سیمابؔ اکبر آبادی تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے لیکن افتخار امام صدیقی کے والد اعجاز صدیقی یہیں رہے۔ اعجاز خود ایک بلند پایہ شاعر اور نثر نگار تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی کاموں کےساتھ ساتھ ماہنامہ ’شاعر‘ کو بھی نئی آب وتاب کے ساتھ جاری رکھا۔ شاعری، نثر نگار اور ماہنامہ ’شاعر‘ کی ادارت، تینوں چیزیں افتخار امام صدیقی کو بھی ورثے میں ملیں اور انھوں نے ان تینوں خانوں میں اپنی ایک نمایاں شناخت قائم کی۔

افتخار امام صدیقی نے زیادہ تر غزلیں کہیں۔ ان کی غزلیں اپنے شدید کلاسیکی رچاؤ کی وجہ سے بہت مقبول ہوئیں۔ کئی اہم گلوکاروں نے ان کی غزلیں گائی ہیں۔ خود افتخار امام صدیقی خوبصورت ترنم کے مالک تھے اور ہندوستان و پاکستان کے مشاعروں میں بہت دلچسپی سے سنے جاتے تھے۔ افتخار امام صدیقی نے کئی تنقیدی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان کا ایک یادگار کام ’شاعر‘ کے وہ خاص شمارے میں جو انھوں نے مشہور ومعروف ادبی شخصیات پر ترتیب دئے ہیں۔ حامد اقبال صدیقی ان کے بھائی ہیں 04 اپریل 2021ء کو افتخار امام صدیقی انتقال کر گئے۔

غزل
۔۔۔۔۔
وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں

ہر ایک دن اداس دن تمام شب اداسیاں
کسی سے کیا بچھڑ گئے کہ جیسے کچھ بچا نہیں

وہ ساتھ تھا تو منزلیں نظر نظر چراغ تھیں
قدم قدم سفر میں اب کوئی بھی لبِ دعا نہیں

ہم اپنے اس مزاج میں کہیں بھی گھر نہ ہو سکے
کسی سے ہم ملے نہیں کسی سے دل ملا نہیں

ہے شور سا طرف طرف کہ سرحدوں کی جنگ میں
زمیں پہ آدمی نہیں فلک پہ کیا خدا نہیں

غزل
۔۔۔۔۔
تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا

کیجئے کیا گفتگو کیا ان سے مل کر سوچئے
دل شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا

درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے
سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا

یہ بھی ہوگا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا مگر
یوں بھی ہوگا خود اسی میں اک خلا رہ جائے گا

دائرے انکار کے اقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹے کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا

غزل
۔۔۔۔۔
بکھر ہی جاؤں گا میں بھی ہوا اداسی ہے
فنا نصیب ہر اک سلسلہ اداسی ہے

بچھڑ نہ جائے کہیں تو سفر اندھیروں میں
ترے بغیر ہر اک راستا اداسی ہے

بتا رہا ہے جو رستہ زمیں دشاؤں کو
ہمارے گھر کا وہ روشن دیا اداسی ہے

اداس لمحوں نے کچھ اور کر دیا ہے اداس
ترے بغیر تو ساری فضا اداسی ہے

کہیں ضرور خدا کو مری ضرورت ہے
جو آ رہی ہے فلک سے صدا اداسی ہے

Leave a reply