اک رہزن کو امیر کارواں سمجھا تھا میں
اپنی بدبختی کو منزل کا نشاں سمجھا تھا میں
دوارکا داس شعلہ
10؍اپریل 1983 یوم وفات
نام #لالہدوارکاداس اور تخلص #شعلہؔ تھا۔
13؍اگست 1910ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ لاہور کے ایک عوامی مدرسے میں آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد معروف طبیب تھے جن کا دواخانہ انارکلی بازار لاہور میں تھا۔ پڑھائی میں دل نہ لگنے کی وجہ سے ان کے والد نے انھیں اپنے دواخانہ میں شیشی دھونے اور ہاتھ بٹانے کے لیے رکھ لیا۔ اسی دوران انھیں شاعری کا شوق پیدا ہوا، مشورۂ سخن ابوالاثر حفیظؔ جالندهری صاحب سے کرتے رہے۔ 1947ء میں تقسیم ہند بعد اپنے کنبے کے ساتھ دہلی چلے آئے۔ عمر آخر تک دہلی ہی آپ کا مسکن رہا۔
دوارکا داس شعلہؔ نے 10؍اپریل 1983ء کو دہلی میں وفات پائی۔
#بحوالہ ریختہ ڈاٹ_کام
منتخب غزلیں
اپنوں کے ستم یاد نہ غیروں کی جفا یاد
وہ ہنس کے ذرا بولے تو کچھ بھی نہ رہا یاد
کیا لطف اٹھائے گا جہان گزراں کا
وہ شخص کہ جس شخص کو رہتی ہو قضا یاد
ہم کاگ اڑا دیتے ہیں بوتل کا اسی وقت
گرمی میں بھی آ جاتی ہے جب کالی گھٹا یاد
محشر میں بھی ہم تیری شکایت نہ کریں گے
آ جائے گی اس دن بھی ہمیں شرط وفا یاد
اللہ ترا شکر کہ امید کرم ہے
اللہ ترا شکر کہ اس نے بھی کیا یاد
کل تک ترے باعث میں اسے بھولا ہوا تھا
کیوں آنے لگا پھر سے مجھے آج خدا یاد
ذرا نگاہ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے
نظر نظر سے ملاؤ کہ غم کی رات کٹے
اب آ گئے ہو تو میرے قریب آ بیٹھو
دوئی کے نقش مٹاؤ کہ غم کی رات کٹے
شب فراق ہے شمع امید لے آؤ
کوئی چراغ جلاؤ کہ غم کی رات کٹے
کہاں ہیں ساقی و مطرب کہاں ہے پیر حرم
کہاں ہیں سب یہ بلاؤ کہ غم کی رات کٹے
کہاں ہو میکدے والو ذرا ادھر آؤ
ہمیں بھی آج پلاؤ کہ غم کی رات کٹے
نہیں کچھ اور جو ممکن تو یار شعلہؔ کی
کوئی غزل ہی سناؤ کہ غم کی رات کٹے
ایک رہزن کو امیر کارواں سمجھا تھا میں
اپنی بد بختی کو منزل کا نشاں سمجھا تھا میں
تیری معصومی کے صدقے میری محرومی کی خیر
اے کہ تجھ کو صورت آرام جاں سمجھا تھا میں
دشمن دل دشمن دیں دشمن ہوش و حواس
ہائے کس نا مہرباں کو مہرباں سمجھا تھا میں
دوست کا در آ گیا تو خود بخود جھکنے لگی
جس جبیں کو بے نیاز آستاں سمجھا تھا میں
قافلے کا قافلہ ہی راہ میں گم کر دیا
تجھ کو تو ظالم دلیل رہرواں سمجھا تھا میں
میرے دل میں آ کے بیٹھے اور یہیں کے ہو گئے
آپ کو تو یوسف بے کارواں سمجھا تھا میں
اک دروغ مصلحت آمیز تھا تیرا سلوک
یہ حقیقت تھی مگر یہ بھی کہاں سمجھا تھا میں
زندگی انعام قدرت ہی سہی لیکن اسے
کیا غلط سمجھا اگر یار گراں سمجھا تھا میں
پھیر تھا قسمت کا وہ چکر تھا میرے پاؤں کا
جس کو شعلہؔ گردش ہفت آسماں سمجھا تھا میں