تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے

اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچنے پر عمران خان کی گاڑی کو احاطہ عدالت داخل ہونے سے روک دیا گیا، عمران خان کے ہمراہ پارٹی رہنما ،کارکنان بھی موجود تھے، عمران خان کے وکلا کی جانب سے عمران خان کی گاڑی کو عدالتی احاطے میں داخلےکی اجازت کے لیے درخواست دائرکردی گئی ، جس میں کہا گیا کہ عمران خان سابق وزیر اعظم ہیں ان کی جان کو خطرات ہیں ان کی گاڑی کو عدالتی احاطےمیں داخلےکی اجازت دی جائے، عمران خان کی گاڑی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ملی جس کے بعد عمران خان پیدل عدالت گئے، اس موقع پر عمران خان کے گرد اہلکاروں نے حفاظتی شیلڈ اٹھا رکھی تھیں

عمران خان کی پیشی کے موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں عمران خان کی آمد سے قبل کمرہ عدالت خالی کرا یا گیا اورکمرہ عدالت کو بم ڈسپوزل اسکواڈ نے کلیئرکیا ڈرون کیمروں کے ذریعے بھی ہائیکورٹ کی سکیورٹی مانیٹرنگ کی جارہی ہے

عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ پیشی کے موقع پر میڈیا سے غیر رسمی بات کی ہے،عمران خان نے شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدی کی موجودگی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کو کہہ رہا ہوں اگر حکومت فوری اسمبلی توڑ کر الیکشن کراتی ہے تو ہی مذاکرات ہوں گے، اگر وہ دوبارہ وہی ستمبر اکتوبر کی بات کرتے ہیں تو کوئی ضرورت نہیں، اب بال حکومت کے کوٹ میں ہے،ایک دن الیکشن کرانے ہیں تو کرائیں، 14 مئی کی تاریخ گزر گئی تو آئین ٹوٹ جائے گا ،ہم قانون کے مطابق چل رہے ہیں ،مذاکرات ایک جیسے لوگ کرتے ہیں،وہ قانون شکنی کر رہے ہیں،وہ اور ہم ایک جیسے نہیں،آج یہاں توہین ڈرٹی ہیری کیلئے آیا ہوں کیا اس سے ساری دنیا میں مذاق نہیں اڑے گا۔عمران خان نے جنرل باجوہ اور کشمیر سے متعلق حامد میر کے بیان پر جواب میں کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ چیزیں پتہ ہیں مگر یہ نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ ہے، میں نہیں چاہتا کوئی انٹرنیشنل خبر بن جائے اور ملک کا نقصان ہو ، جنرل ریٹائرڈ باجوہ خود کہتا کہ عمران خان خطرناک ہے،

قبل ازیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان عدالت پیشی کے لئے لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوئے ،عمران خان ایک قافلے کی شکل میں لاہور سے اپنی رہائشگاہ سے روانہ ہوئے، عمران خان موٹروے سے اسلام آباد گئے، زمان پارک سے روانگی کے وقت کارکنان نے عمران خان کے حق میں نعرے لگائے،

عمران خان پر عسکری حکام پر الزامات کے تناظر میں بغاوت پر اکسانے کا کیس ہے ان کے خلاف مجسٹریٹ کی مدعیت میں تھانہ رمنا میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، عمران خان نے حفاظتی ضمانت کروا رکھی تھی جو 26 اپریل کو ختم ہو چکی ہے،

عمران خان کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کرتے ہوئے آج ہی درخواست ضمانت پر سماعت کی استدعا کی ہے ،عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ شدید سکیورٹی تھریٹس ہیں جس کی وجہ سے دوبارہ قاتلانہ حملہ ہوسکتا ہے عدالت ٹرائل کورٹ کے بجائے خود عبوری ضمانت منظور کرے ،

دوسری جانب ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس کا کہنا ہے کہ عمران خان کی عدالت پیشی پر مؤثر سکیورٹی اقدامات کیے جائیں گے، ایف آئی آر قانون کے مطابق درج ہوتی ہیں جن کا فیصلہ عدالت کرتی ہے قانون کی نظر میں کسی کو کوئی امتیازی حیثیت حاصل نہیں، امید ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی عدالت پیشی پرقانون کا احترام کریں گے۔

عمران خان کے خلاف تھانہ رمنا میں مجسٹریٹ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، درج ایف آئی آر کے مطابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے انٹرویو میں حساس ادارے کے آفیسر سے متعلق نازیبا الفاظ کا استعمال کیا۔ حساس اداروں کے مختلف افسران کے نام لے کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ عمران خان مذموم ارادوں کے مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ عمران خان کا یہ عمل ملک و ریاست کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔ مقدمے کے مطابق عمران خان نے اپنی تقاریر سے فوج، مختلف گروہوں اور طبقوں میں انتشار پھیلایا ہے عمران خان نے اپنی تقریرمیں فوجی افسران کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے انہوں نے فوجی افسران اوران کے اہلخانہ کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا

عمران خان موو کرتے ہیں تو انکے ساتھ سیکیورٹی ہوتی ہے؟حکومت سے جواب طلب

اس بار تو پولیس نے آپ پر ڈکیتی کی دفعہ بھی لگا دی ہے

زمان پارک، اسلحہ ملا،شرپسند عناصر تھے،آئی جی سب دکھائینگے،وزیر داخلہ

زمان پارک سے اسلحہ ملنے کی ویڈیو

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کا اپنا کیا دھرا ہے

Shares: