پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں آگے کیا ہوگا؟

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ مسلسل بدل رہا ہے، اس میں کوئی ایک لمحہ دوسرے سے مشابہت نہیں رکھتا۔ آئیے موجودہ منظر نامے کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں:

عمران خان زمان پارک سے اپنی تقاریر میں فوج پر تنقید کرتے رہتے ہیں. اسے کریک ڈاؤن کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اور اسے جمہوریت پر ایک حملہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے بیانیے میں واحد تبدیلی اس کی کریک ڈاؤن کے خلاف امریکہ سے مدد کی اپیل ہے۔

کچھ "لبرلز” فوج کے ردعمل پر سوال اٹھا رہے ہیں اور کیپیٹل ہل میں ہونے والے واقعات پر امریکی حکومت کے ردعمل سے اس کا موازنہ بھی کر رہے ہیں۔ جو اس کا علم رکھتے ہیں وہ ایک نکتہ اٹھاتا ہے کہ کیا کیپیٹل ہل ایک فوجی تنصیب تھی اور کیا ٹرمپ کے حامیوں نے کسی فوجی یا فضائیہ کے اڈوں، پینٹاگون، یا کسی جنرل کی رہائش گاہ پر حملہ کیا؟ متعدد شہروں میں 9 مئی کو ہونے والے ہم آہنگ حملے یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی . اس وجہ سے یہ نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی صرف فوج کو نشانہ نہیں بنایا۔

9 مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی پر عمران خان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش جاری ہے۔ محاذ آرائی کی سیاست، جو کہ دور اقتدار میں بھی خان کے موقف کی بنیاد اور ان کی پارٹی کا خاصہ رہا ہے. اسی کے نتیجے میں ایک غیر فعال طرز حکمرانی کا عمل منظرعام پہ آیا تھا۔

بیشک کہ اگر جہانگیر ترین کے خلاف آرٹیکل 62[1][f] کے تحت الیکشن لڑنے پر پابندی برقرار رہے گی، چوںکہ اس کے ہٹائے جانے کے بہت کم امکانات ہیں، کیونکہ نواز شریف کو بھی اسی قانون کے تحت 2017 میں نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اور ترین کو ریلیف دینے کا مطلب ہے کہ شریف کو بھی دینا پڑے گا۔ بہر حال، ترین کے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اور انہیں پی ٹی آئی سے منحرف ایم این ایز اور ایم پی اے کی کثیر تعداد کی حمایت بھی حاصل ہے۔ امکانات ہیں کہ وہ پاکستان کے سیاسی مستقبل کی تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔

یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک جلد ہی تشکیل دیا جائے گا اور اس کا اعلان اس تحریر کی اشاعت سے کچھ ہی پہلے ہو سکتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ کے منحرف ہونے کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔نیز چوہدری شجاعت بھی ایک مضبوط سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انتخابات اس سال کسی وقت، اور ممکنہ طور پر اکتوبر ہی میں ہو سکتے ہیں۔ یہ اب بھی "ممکنہ” ہے۔ تاہم، جب تک پارٹیوں کے بنیادی ڈھانچے کی اندرونی صفائی نہیں ہوتیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی جانب سے ضروری تبدیلیوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا، بشمول ‘ان میں سے کوئی نہیں'(NOTA) کے آپشن کو متعارف کرانا، ممکن ہے کہ وہی جانے پہچانے چہرے واپس آجائیں۔ . ضروری اقدامات کے متعلق مزید تفصیلات میرے ویلاگ مورخہ 4 جون 2023 میں بھی بیان ہو چکے ہیں۔

Shares: