کوئٹہ ،باغی ٹی وی(نامہ نگارزبیرآکاخیل)وزیر اعلیٰ بلوچستان اور صدر بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سردار عبدالقدوس بزنجو نے وفاقی بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔وفاقی بجٹ کل پارلیمنٹ ہاؤس میں پیش کیا جائے گا جس کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس کل سہہ پہر 4 بجے طلب کر لیا گیا ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان اور صدر بی اے پی عبدالقدوس بزنجو نے وفاقی بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاقی بجٹ سیشن کاحصہ نہیں بنے گی۔
۔بلوچستان عوامی پارٹی وفاقی بجٹ سیشن کا حصہ نہیں بنے گی ،بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز وفاقی بجٹ سیشن میں شرکت نہیں کرینگے ۔بی اے پی کے اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کو اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی واضع ہدایات جاری کردی گئی ہیں ، وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے رکن قومی اسمبلی و سینٹ کے خلاف انضباطی کارروائی کر کے ڈی سیٹ کر دیا جائے گا،این ای سی کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی مرکزی حکومت کے رویہ کی وجہ سے کیا،انہوں نے بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کی وجہ بھی وفاقی حکومت کی بلوچستان کے لیئے سرد مہری ہے،ہمار ی وفاقی حکومت سے کوئی پر خاش نہیں اختلاف کی وجہ اصولی ہے،بلوچستان شدید مالی مسائل کا شکار ہے ،ان مسائل کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت کا عدم تعاون ہے ،بار ہا رابطوں اور یاد دہانیوں کے باوجود ہمیں ہمارا آئینی حق نہیں دیا جارہا ،وفاقی حکومت وعدے اور یقین دہانیاں تو کراتی ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا،ہمارے مطالبے آئینی بنیاد پر ہیں کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کر رہے،ان کاکہنا تھاکہ پی پی ایل کئی سالوں سے ہمارے واجبات ادا نہیں کررہی جو 45 ارب روپے سے زائد تک پہنچ چکے ہیں ،ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان سے کسی معاہدے کے بغیر سوئی گیس فیلڈ میں پی پی ایل کا آپریشن جاری ہے ،پی پی ایل کمپنی کا انتظامی اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے،وفاقی حکومت پی پی ایل کے واجبات کے ادائیگی میں نہ تو کوئی دلچسپی لے رہی ہے اور نہ ہی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔،وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے منصوبے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے عدم تکمیل کا شکار ہیں ،ان منصوبوں کے لیئے مختص فنڈز کا نصف بھی جاری نہیں کیا جاتا،بلوچستان کے وفاقی منصوبوں کے ٹینڈر تو ہوتے ہیں لیکن فنڈز کہیں اور منتقل کر دیئے جاتے ہیں ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ سال سیلاب میں بلوچستان کی قومی شاہراہوں کو شدید نقصان پہنچا این ایچ اے نے ان شاہراہوں کی بحالی کے لیئے کوئی کام نہیں کیا،ان شاہراہوں پر سفر کر کے محسوس ہوتا ہے کہ ہم پھر سے پتھر کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں کراچی کو کوئٹہ اور سنٹرل ایشیا سے منسلک کرنے والی شاہراہ کے آٹھ پل سیلاب میں بہہ گئے تھے ایک سال بعد بھی متبادل کچے راستوں سے گاڑیاں گزرتی ہیں ،وزیراعظم نے ایک سال قبل وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں منعقدہ تقریب میں چمن کراچی شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا ،وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ 18 ماہ میں یہ منصوبہ مکمل ہوگا ،بدقسمتی سے ابھی تک اس منصوبہ کا 20 فیصد کام بھی نہیں ہوا ، ،جس رفتا ر سے کام جاری ہے اور فنڈز دیئے جا رہے ہیں یہ منصوبہ 18 ماہ تو کیا 18 سال میں بھی مکمل نہیں ہو گا۔۔این ایف سی کا ہمارا شئیر بروقت نہیں ملتا اور اس نیں کٹوتی بھی کی جاتی ہے ۔وزیراعظم کی جانب سے سیلاب کے دوران اعلان کردہ دس ارب نہیں دیئے گیئے ۔ ۔1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر ساتواں این ایف سی ایوارڈ اپنی مدت پوری کر چکا،ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم کی بنیادآبادی تھی ،حالات کی خرابی کے باعث بلوچستان میں 1998 کی مردم شماری نامکمل رہی جسکا نقصان ہمیں وسائل کی تقسیم میں ہوا ،ہمارا مطالبہ ہے کہ نیا این ایف سی ایوارڈ فوری طور پر کیا جائے جو آئینی تقاضہ بھی ہے،نئی مردم شماری کے مطابق نیا این ایف سی ایوارڈ نہ ہونے سے بلوچستان کو سالانہ دس ارب سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے،وفاقی حکومت ہمارے مطالبات اور موقف کو سنجیدگی سے لے،اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وفاق اور صوبے میں پیدا خلیج مزید بڑھے گی جو وفاق کے لیئے نقصان دہ ہو سکتا ہے ،بلوچستان کا استحصال کسی صورت قبول نہیں اپنے جائز آئینی موقف پر ڈٹ کر کھڑے ہیں ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے کیا کہ بلوچستان کے عوام ہماری جانب دیکھ رہے ہیں ہم انکے حقوق کے حصول سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے،بلوچستان کی ترقی اور پسماندگی دور کرنے کے لیئے اسلام آباد میں بیٹھ کر صرف باتیں کی جاتی ہیں۔بلوچستان کے زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں یہاں عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔وزیراعلیٰ نےآصف علی زردای مولانا فضل الرحمن سردار اختر جان مینگل اور صوبے کے دیگر قومی لیڈروں سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے موقف کو تقویت دیں ۔
Shares: