تجزیہ: شہزاد قریشی
اگلے ماہ حکومت کی مدت پوری ہورہی ہے۔ انتخابات کب ہوں گے یہ ایک بڑا سوال ہے جس پر جتنا ماتم کیا جائے وہ کم ہے آئین میں صاف لکھا ہے کہ انتخابات کب ہونے چاہیں پھر بھی اگر یہ سوال سر اٹھا رہا ہے تو پھر سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب حکومت تین ماہ اور کے پی کے کی حکومت تین ماہ تک تھی مگر آئین کی حد کو کراس کرگئیں اور نگران حکومتیں ہی بدستور کام کررہی ہیں۔ کیا مرکز میں بھی ایسا ہونے جارہا ہے۔ کیا شہباز شریف کی حکومت کو ہی آگے چلایا جائے گا؟ کیا نگران حکومت جو مرکز میں ہوگی اسے لمبا کرکے عبوری حکومت میں تبدیل کردیا جائے گا؟ اور عبوری حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف ہی ہوں گے؟ اس طرح کی خبروں اور اطلاعات سے انتخابی عمل ایک معمہ بنتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ خواہشات ہیں۔ سب کی خواہشیں اندازے ہیں ان خواہشوں کے آگے بند باندھنے کے لئے بھی تو کوئی کھڑا ہے۔ عوام کی اکثریت پریشانی کے دور سے گزر رہے ہیں بازاروں میں لوٹ مار مچی ہے امن او مان کا مسئلہ ڈاکو دن دیہا ڑ لوٹ رہے ہیں ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ بے روزگاری اور مہنگا ئی ہے۔ میڈیا نگران حکومت اور آمدہ قومی انتخابات کو لے کر روزانہ نئے تبصرے کر رہا ہے۔ تاہم الیکشن کو لے کر معاملہ کافی پیچیدہ ہو رہا ہے۔
سیاسی جماعتیں ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ الیکشن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ تاہم کراچی سے پنجاب اور اسطرح ملک بھر میں جرائم میں اضافہ سیاستدانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس وقت انتظامیہ اور پولیس نام کی کوئی شے ملک میں موجود نہیں سیاستدانوں نے اپنی سیاسی دوکان قائم رکھنے کے لئے پولیس اور انتظامیہ کو تقسیم کر دیا ہے۔ پسند ناپسند کی بنیاد پر پولیس افسران اور انتظامی افسران کا تقرر کیا جا رہا ہے۔ سینئر افسران کو کھڈے لائن لگا کر جونیئر افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے جس کے نتائج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ کراچی سے پنجاب اور دوسرے صوبوں میں اغواء‘ ڈکیتی‘ چوریاں ‘ منشیات ‘ قمار بازی کے اڈے دیگر بڑھتے ہوئے جرائم کا کوئی اور ذمہ دار نہیں ہمارے با اختیار حکمران ہیں جو اس وطن عزیز کے خود ساختہ مالک ہیں انکے فیصلوںسے عوام کی اکثریت دکھی ہے ۔








