اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آئینی حد سے زیادہ قرضے لینے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی-

باغی ٹی وی : چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے آئینی حد سے زیادہ قرضے لینے سے متعلق کیس کی سماعت کی جس میں چیف جسٹس کے ہمراہ جسٹس اطہر من اللہ بینچ کا حصہ تھے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف پیش کیا کہ 2020 میں قرضے لینے سے متعلق آئینی درخواست دائر کی، کیس میں فریق حفیظ شیخ اور رضا باقر تو بھاگ چکے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005 پر عملدرآمد نہیں کیا گیا وکیل درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ حکومتوں نے حد سے زیادہ قرضے لے کر آئینی خلاف ورزی کی۔

الیکشن کمیشن کا نئی حلقہ بندیاں کرانے کا نوٹیفکیشن لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے ہائیکورٹ جانا چاہیے، ملک شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے اٹھائے گئے نکتے میں وزن ہے، آخر ملک پر اتنا قرض کیوں لیا گیا؟ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر دیکھیں کہ 1947 سے آج تک سالانہ کتنے قرض لیے گئےملک کو ابتر معاشی صورتحال کا سامنا ہے، یہ بہتر وقت نہیں ہے کہ عدالت اس قسم کی درخواست کو سنے۔

آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف لاہورہائیکورٹ میں درخواست دائر

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئےکہ آپ نےجوتجاویز دینی ہیں وہ وفاقی حکومت کو دیں،سپریم کورٹ کومعاشی مسائل میں مت الجھائیں، عدالت پہلے ہی بہت سے معاملات میں الجھی رہی ہے،وفاقی حکومت ہی معیشت سے متعلق معاملات دیکھنے کا متعلقہ فورم ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزار کو کہیں کہ وہ معاشی معاملات پر اخبار میں لکھ کرعوام کو شعور دیں۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملک بھر کیلئےاسلام آباد میں خصوصی عدالت قائم

عدالت نے وکیل کو درخواست گزار ڈاکٹر محمد زبیر سے ہدایات لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

Shares: