سپریم کورٹ میں چیرمین پی ٹی ائی کا توشہ خانہ کیس ٹرائل کو بھجوانے کے ہائیکورٹ حکم کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی ، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیرمین پی ٹی آئی کی جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے مختلف احکامات کے خلاف تین درخواستیں دائر کی ہیں، چیرمین پی ٹی ائی 2018 انتخابات میں میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے، الیکشن ایکٹ ہر رکن اسمبلی کو اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا کہتا ہے،6 اراکین اسمبلی نے چیرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کیلئے سپیکر اسمبلی کے پاس ریفرنس بھیجا ،اراکین اسمبلی نے چیرمین پی ٹی پر اثاثوں کی غلط ڈیکلریشن کا الزام لگایا سپیکر اسمبلی نے ریفرنس الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا
جسٹس مظاہر علی اکبرنے لطیف کھوسہ کو ہدایت کی کہ آپ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 137 پڑھیں ، لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن 120 دنوں میں ہی کاروائی کرسکتا یے،جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ایک ممبر دوسرے کے خلاف ریفرنس بھیج سکتا ہے ، لطیف کھوسہ نے کہا کہ کوئی ممبر ریفرنس نہیں بھیج سکتا الیکشن کمیش خود بھی ایک مقررہ وقت میں کاروائی کرسکتا ہے ،چیئیرمین پی ٹی آئی کیخلاف سپیکر نے ریفرنس بھیجا لیکن 120 دن گزرنے کے بعد، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف ہے شکایت کی قانونی حیثیت پر نہیں، ٹرائل کورٹ سے مقدمہ ختم ہوچکا اب کس کو ریمانڈ کیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا سزا کیخلاف مرکزی اپیل پر کیا اثر ہوگا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانی ہونگی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی، لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو چیئرمین پی ٹی آئی کو نااہل کرکے شکایت درج کرانے کا فیصلہ کیا،الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا، لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا نہ کوئی فوجداری کارروئی تاحکم ثانی نہیں ہوگی،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرینگے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواست وہاں ہی دائر ہوسکتی جس عدالت کی توہین ہوئی، لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے فوجداری شکایت درج کرائی،ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن نے مقدمہ درج کرانے کی اتھارٹی نہیں دی تھی،جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اپ نے شکایت کی قانونی حیشت کو چیلنج ہی نہیں کیا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے شکایت کی قانونی حیشت کو ہی چیلنج کیا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس اب ٹرائل کورٹ میں زیر التوا نہیں، آپ کا کیس سن کر اب ہم کہاں بھیجیں گے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس ساری مشق کو سپریم کورٹ کالعدم قرار دے سکتی ہے ،انصاف تک کی رسائی کو روکا جاتا رہا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کہتے ہیں شکایت ایڈیشنل سیشن کے بجائے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیے تھی ،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے فیصلے پبلک ہوتے ہیں، فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے اور فیصلوں تک ہی رہنی چاہیے، ادارے ایسے ہی کام کر سکتے ہیں،جسٹس مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس کا فیصلہ دینے کے کتنے دن بعد شکائت بھیجی، لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون میں دنوں کا تعین اثاثوں کے تفصیل جمع کرانے کے بعد سے لکھا ہے، سردار لطیف کھوسہ نے قانون پڑھ کر سنا دیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 342 اسمبلی ممبران پھر صوبائی ممبران سب کی تفصیل الیکشن کمشن 120 دن میں کیسے دیکھ سکتا ہے ؟ 120 دن کہاں سے شروع ہوں گے کے یہ دیکھنے کے لیے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہو گا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرا مقدمہ بار بار ایک ہی جج کو بھجوایا گیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کسی عدالت پر تعصب کا الزام نہیں لگا سکتے، سپریم کورٹ یہاں سول جج تک اپنے تمام ججز کا دفاع کرے گی، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے اس عدلیہ کے لیے اپنا خون بہایا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس لیے تو آپ سے توقعات زیادہ ہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم آپ کے لیے حاضر ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے لیے نہیں اس چئیر کے لیے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجا تھا جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ جج فیصلہ دیکر لندن روانہ ہو گئے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لندن والی بات نہ کریں، آپ صرف یہ بتائیں ہائی کورٹ کے بتائے نکات پر ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا یا نہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ان نکات پر فیصلہ نہیں کیا کیس قابل سماعت ہونے کا اپنا سابقہ فیصلہ بحال کردیا،ان جج صاحب نے فیس بک پر چئیرمیں پی ٹی آئی کیخلاف زہر اگلا ہوا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہو گئے ،سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی.
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں، عمران خان کو غلط طریقے سے سزا سنائی گئی،عمران خان کو سزا سنانے میں کوئی ایک نہیں کئی بڑی غلطیاں ہوئیں، عمران خان کا حق دفاع ختم کرنا غلط تھا، ٹرائل کورٹ کے جج نے اس فیصلے پر انحصار کیا، جو کالعدم ہو چکا تھا، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ملک کی کسی اور عدالت میں یہ سب ہوتا ہے جو جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں ہوا؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کی سرزنش کی اور کہا کہ آپ ہر بات پر اسلام آباد ہائیکورٹ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں،لطیف کھوسہ نے کہا کہ اعتراض نہ کریں تو پھر کیا کریں ؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ نے فیصلہ کردیا تو آپ اپیل کردیں، عدالت کا ہر فیصلہ پبلک ڈومین میں جاتا ہے،
عدالت کا فیصلہ ڈسکس ہونا چاہیے ججز نہیں، لطیف کھوسہ نے جواب دیا ،ٹھیک ہے سر، چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہائیکورٹ نے چار اگست کو آپ کی درخواستوں پر فیصلہ کردیا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ پانچ اگست کو ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیشن عدالت کے خلاف کوئی حکم امتناع نہیں تھا اس نے فیصلہ ہی کرنا تھا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون میں پھر 120 کی حد کیوں دی گئی ہے ؟ کیا ساری عمر یہ تلوار لٹکتی رہے گی ؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون میں لکھا ہے کہ جب ڈیکلریشن کا جھوٹا ہونے کا پتہ چلے گا اس کے 120 دن تک شکایت درج ہوسکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 800 سے زیادہ ارکان ہیں، الیکشن کمیشن نے سینکڑوں ارکان اسمبلی کے اثاثوں کا جائزہ 120 دن میں تو نہیں لے سکتا،120 دن کب شروع ہوں گے اس کے لیے مائنڈ آپلائی کرنا پڑتا ہے، پانچ اگست کو اپیل کا فیصلہ ہوگیا آپ نے چینلج بھی کردیا،ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کو تعصب کے ساتھ ٹرائل کی تیز رفتاری پر بھی اعتراض تھا،اگر کوئی فیصلہ غلط ہے اس میں مداخلت کرسکتے ہیں، سپریم کورٹ یہاں ہر جج کے تحفظ کے لیے بیٹھی ہے،سپریم کورٹ کے جج سے لے کر ماتحت عدالت تک ہر جج کی عزت برابر ہے،جب فیصلہ آجاتا ہے تو وہ عوام کی ملکیت ہوتی ہے، تنقید عدالتی فیصلے پر کریں ادارے پر نہیں،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف کرپٹ پریکٹس ثابت ہوئی پھر شکایت بھیجی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ٹرائل کورٹ یا اپیلٹ کورٹ نے کسی معاملے کو نہیں دیکھا تو ہم اس کو دیکھ سکتے،اگر متعلقہ کورٹ نے کسی معاملے پر فیصلہ کرلیا ہے تو اپیل میں ہم دیکھ سکتے ہیں،قومی اسمبلی کے 342 ارکان ہوتے ہیں،120دن میں شکایت بھیجنا مشکل ہے،آپ عدالتی فیصلے پر بات کریں، جج پر بات نا کریں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج سے لے کر ٹرائل کورٹ تک سب کی برابر عزت و تکریم ہے، ہم نے آپ کیلئے خون دیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ہمارا ساتھ دیا، آئین کیلئے ہم گواہ ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے آئین کیلئے جدوجہد کی، کسی جج کیلئے نہیں،
لطیف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی واپس ہائیکورٹ بھیج دیا،سپریم کورٹ ہمارے اعتراضات کو سن کر فیصلہ کرے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ ہائیکورٹ کے فورم کو کیوں ضائع کررہے ہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ
ہائیکورٹ کا فورم ضائع ہوتا ہے تو ہونے دیں،ہم خوار ہورہے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ جزباتی ہونے کی بجائے قانون کے مطابق دلائل دیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائیکورٹ میں اپیلیں زیرسماعت ہیں انہیں فیصلہ کرنے دیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بہتر نہیں ہوگا ہائیکورٹ مائنڈ اپلائی کرکے فیصلہ دے، بار بار کیسز عدالتوں میں آتے رہے، امجد پرویز وکیل الیکشن کمیشن نےکہا کہ اس کیس میں پیش ہونے کیلئے میرے پاس اٹارنی نہیں ہے، عدالت نے وکیل الیکشن کمیشن سے کہا کہ آپ پہلے بھی پیش ہوتے رہے ہیں، اس کیس پر آپ سے معاونت لیں گے، ہائیکورٹ نے خود فیصلہ کرنے کی بجائے پھر ریمانڈ بیک کردیا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے 3سے4 مرتبہ کیس میں وقفہ کیا لیکن ملزم کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہوا، پھر سیشن کورٹ نے فیصلہ کردیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کتنے دن کے مواقع دئیے گئے، اگر ٹرائل کورٹ یا اپیلٹ کورٹ نے کسی معاملے کو نہیں دیکھا تو ہم اس کو دیکھ سکتے،اگر متعلقہ کورٹ نے کسی معاملے پر فیصلہ کرلیا ہے تو اپیل میں ہم دیکھ سکتے ہیں،
توشہ خانہ کیس میں جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کو سزا سنائی ،جس کے بعد عمران خان اٹک جیل میں ہیں، جج ہمایوں دلاور پر پی ٹی آئی نے اعتراض عائد کیا تھا اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی تا ہم عدالت نے دو بار یہی فیصلہ دیا تھا کہ جج ہمایوں دلاور ہی کیس کو سنیں گے جس کے بعد پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جج ہمایوں دلاور کیس کا فیصلہ سنا چکے ہیں اور عمران خان جیل میں ہیں
عمران خان کو جب زمان پارک سے گرفتار کر کے اٹک جیل لے جایا گیا تھا تو ابتدائی ایام میں عمران خان کو جیل میں مشکلات کا سامنا تھا ، انکو ایک چھوٹی سی بیرک میں رکھا گیا تھا اور واش روم بھی اسی بیرک کے اندر ہی موجود تھا تا ہم اب عمران خان کو جیل میں سہولیات ملنے لگ گئی ہیں،
اعظم خان نےعمران خان پرقیامت برپا کردی ،سارے راز اگل دیئے،خان کا بچنا مشکل
جیل اسی کو کہتے ہیں جہاں سہولیات نہیں ہوتیں،
چیئرمین پی ٹی آئی پر ایک مزید مقدمہ درج کر لیا گیا
نشہ آور اشیاء چیئرمین پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں پہلی لڑائی کی وجہ بنی،
بشریٰ بی بی نے شوہر کے لئے چار سہولیات مانگ لیں
پی ٹی آئی کورکمیٹی میں اختلافات،وکیل بھی پھٹ پڑا








