ہ جانے شعر میں کس درد کا حوالہ تھا
کہ جو بھی لفظ تھا وہ دل دکھانے والا تھا

سیلم احمد

اردو زبان میں سلیم احمد جیسے شاعر اور ادیب کم ہی گزرے ہیں جنہوں نے خود کو ادب کے لئے اس طرح وقف کردیا ہو کہ کبھی کبھی دھوکا ہونے لگتا ہو کہ وہ گوشت پوست سے بنے ہوئے انسان نہیں بلکہ مجسمہ ٔ خیال ہوں۔ ایسے ہی ایک شاعر اور ادیب سلیم احمد بھی تھے۔ جناب سلیم احمد27 نومبر1927ء کو ضلع بارہ بنکی کے ایک قصبے کھیولی میں پیدا ہوئے۔ وہیں سے میٹرک کیا اور میٹرک کے بعد میرٹھ کالج میں داخل ہوئے جہاں ان کے تعلقات پروفیسر کرار حسین، محمد حسن عسکری، انتظار حسین اور ڈاکٹر جمیل جالبی سے استوار ہوئے جو دم آخر تک قائم رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے، یہیں تعلیم مکمل کی اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ جناب سلیم احمد نے 1944ء میں ہی شاعری شروع کردی تھی۔ ان کی شاعری باوجود منفرد لب و لہجے اور نئے اسلوب و مضامین کے کڑے اعتراضات کا نشانہ بنی۔ سلیم احمد کی وجۂ شناخت ان کے بے لاگ اور کھرے تنقیدی مضامین تھے جن کی کاٹ اور جن کی صداقت اور راست بازی کے دوست ہی نہیں دشمن بھی گرویدہ تھے۔ سلیم احمد ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لئے متعدد ڈرامے تحریر کئے، اخبارات میں کالم نگاری بھی کی اورپاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی تحریر کی جس پرانہیں بہترین کہانی نویس کا نگار ایوارڈ بھی عطا کیا گیا۔ ٭یکم ستمبر 1983ء کو سلیم احمد کراچی میں وفات پاگئے اور پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغ نیم شب اور مشرق اور تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔
ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے:
اک پتنگے نے یہ اپنے رقص آخر میں کہا۔
روشنی کے ساتھ رہئے روشنی بن جایئے۔

سیلم احمد کی چند منتخب غزلیں

غزل

نہ جانے شعر میں کس درد کا حوالہ تھا
کہ جو بھی لفظ تھا وہ دل دکھانے والا تھا

افق پہ دیکھنا تھا میں قطار قازوں کی
مرا رفیق کہیں دور جانے والا تھا

مرا خیال تھا یا کھولتا ہوا پانی
مرے خیال نے برسوں مجھے ابالا تھا

ابھی نہیں ہے مجھے سرد و گرم کی پہچان
یہ میرے ہاتھوں میں انگار تھا کہ ژالہ تھا

میں آج تک کوئی ویسی غزل نہ لکھ پایا
وہ سانحہ تو بہت دل دکھانے والا تھا

معانی شب تاریک کھل رہے تھے سلیمؔ
جہاں چراغ نہیں تھا وہاں اجالا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

بیٹھے ہیں سنہری کشتی میں اور سامنے نیلا پانی ہے
وہ ہنستی آنکھیں پوچھتی ہیں یہ کتنا گہرا پانی ہے

بیتاب ہوا کے جھونکوں کی فریاد سنے تو کون سنے
موجوں پہ تڑپتی کشتی ہے اور گونگا بہرا پانی ہے

ہر موج میں گریاں رہتا ہے گرداب میں رقصاں رہتا ہے
بیتاب بھی ہے بے خواب بھی ہے یہ کیسا زندہ پانی ہے

بستی کے گھروں کو کیا دیکھے بنیاد کی حرمت کیا جانے
سیلاب کا شکوہ کون کرے سیلاب تو اندھا پانی ہے

اس بستی میں اس دھرتی پر سیرابیٔ جاں کا حال نہ پوچھ
یاں آنکھوں آنکھوں آنسو ہیں اور دریا دریا پانی ہے

یہ راز سمجھ میں کب آتا آنکھوں کی نمی سے سمجھا ہوں
اس گرد و غبار کی دنیا میں ہر چیز سے سچا پانی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

دیدنی ہے ہماری زیبائی
ہم کہ ہیں حسن کے تمنائی

بس یہ ہے انتہا تعلق کی
ذکر پر ان کے آنکھ بھر آئی

تو نہ کر اپنی محفلوں کو اداس
راس ہے ہم کو رنج تنہائی

ہم تو کہہ دیں سلیمؔ حال ترا
کب وہاں ہے کسی کی شنوائی

اور تو کیا دیا بہاروں نے
بس یہی چار دن کی رسوائی

ہم کو کیا کام رنگ محفل سے
ہم تو ہیں دور کے تماشائی

وہ جنوں کو بڑھائے جائیں گے
ان کی شہرت ہے میری رسوائی

معتقد ہیں ہماری وحشت کے
شہر میں جس قدر ہیں سودائی

عشق صاحب نے دل پہ دستک دی
آئیے مرشدی و مولائی

یہ زمانے کا جبر ہے کہ سلیمؔ
ہو کے میرے بنے ہیں سودائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔
.
بشکریہ ، عامر شیرازی

ترتیب و ترسیل : آغا نیاز مگسی

Shares: