سپریم کورٹ میں انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے ریکارڈ تک رسائی کی درخواست پر سماعت ہوئی،

کورٹ شروع ہوتے ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا،درخواست گزار شہری کی وکیل بھی روسٹرم پر آ گئیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ،آپ ریکارڈ دیکھ کر تیاری کرلیں،یہ حساس معاملہ ہے،یہ نہ ہو کہ ہم کچھ اور کہہ رہے ہوں اور اٹارنی جنرل کچھ اور،اٹارنی جنرل وفاق کے وکیل ہیں آپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہو گی،ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان رجسٹرار آفس کی نمائندگی کریں گے،کیس کو نمبر کے مطابق آخر میں ہی سنا جائے گا،آپ کسی کو یہاں کورٹ روم میں بٹھا دیں جب کیس کی باری آئے گی تو آپ کو بلا لیں گے

سپریم کورٹ عملے کی تفصیلات فراہم کرنے سے متعلق شہری کی درخواست پر سماعت ہوئی،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپ نے کونسی تفصیلات مانگی تھیں؟ درخواست گزار نے کہا کہ گریڈ 1 تا 22 تک عدالتی عملے کی تفصیلات مانگی تھیں جو فراہم نہیں کی گئیں، خواتین، معذور اور مستقل و عارضی ملازمین کی تعداد بھی مانگی تھی،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ آپ نے ان معلومات کا کرنا کیا ہے؟ درخواست گزار نے جواب دیا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ بتانے کا پابند نہیں ہوں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صرف اپنی معلومات کیلئے پوچھ رہا ہوں معلوم ہے آپ قانونی طور پر بتانے کے پابند نہیں، درخواست گزار نے کہا کہ ملکی اداروں میں شفافیت کیلئے کام کر رہا ہوں اس لئے معلومات درکار ہیں، قانون اور آئین میں کسی آئینی ادارے کو معلومات تک رسائی سے استثنی نہیں،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انفارمیشن کمیشن میں رجسٹرار آفس نے کیا جواب جمع کرایا تھا؟ کیا سپریم کورٹ کا معلومات تک رسائی کے قانون میں ذکر ہے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ قانون میں ٹربیونلز اور دیگر عدالتوں کا ذکر ہے سپریم کورٹ کا نہیں،

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی ہائی کورٹ سپریم کورٹ کیخلاف رٹ جاری کر سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ کیخلاف رٹ جاری نہیں ہوسکتی، سپریم کورٹ کسی ہائی کورٹ سے رجوع بھی نہیں کر سکتی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ تمام معلومات ویب سائٹ پر ڈال دی جائیں، اگر کوئی ملازم یا افسر اپنی معلومات شیئر نہ کرنا چاہے تو کیا ہوگا؟ سپریم کورٹ میں دو خواجہ سرا بھی ملازم ہیں وہ خود کو ظاہر نہ کرنا چاہیں تو کیا ہوگا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ صرف اتنی معلومات دی جا سکتی ہیں کہ دو خواجہ سرا بھی ملازم ہیں، خواجہ سرائوں یا کسی افسر کی تفصیلات ذاتی نوعیت کی معلومات ہیں وہ نہیں فراہم کی جا سکتیں،سپریم کورٹ رولز کے تحت رجسٹرار کو اختیار نہیں کہ ازخود ہائی کورٹ سے رجوع کر سکے، سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور دیگر ججز ہیں رجسٹرار نہیں،انتظامی سطح پر فل کورٹ میٹنگ ہی قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کر سکتی تھی،

معلومات تک رسائی قانون کے تحت ” سپریم کورٹ شہری کو معلومات دے گی یا نہیں ؟ سپریم کورٹ نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا اٹارنی جنرل اور شہری درخواست گزار کو عدالت نے تحریری دلائل 14 روز میں جمع کرانے کا حکم دے دیا

Shares: