نیب ترامیم سے متعلق کیس،جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ جاری

0
97
supreme court01

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے متعلق کیس،جسٹس منصور علی شاہ کا 27صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا

جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ عدلیہ قانون سازی کا اس وقت جائزہ لے سکتی ہے جب وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو، قانون سازوں کے مفاد کو سامنے رکھ کر جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے،سپریم کورٹ نے 15 ستمبر کو نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا،2ایک کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیاگیا تھا،اداروں کے درمیان توازن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب احترام کا باہمی تعلق قائم ہو، پارلیمانی نظام حکومت میں عدلیہ کو ایگزیکٹو یا مقننہ کے مخالف کے طور پر نہیں دیکھا جاتا،عدلیہ کو اس وقت تک تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب تک آئینی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو، نیب ترامیم کے حوالے درخواست گزار کے بنیادی حقوق کا موقف غیر یقینی ہیں،درخواست گزار کاموقف تسلیم کیا گیا تو پارلیمان کیلئے کسی بھی موضوع پر قانون سازی مشکل ہوگی

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ پارلیمان کی جانب سے بنائے گئے قوانین بالاخر کسی نہ کسی انداز میں بنیادی حقوق تک پہنچتے ہیں ،درخواست گزار نیب ترامیم کو عوامی مفاد کے برعکس ثابت کرنے میں ناکام رہا ،درخواست آئین کے آرٹیکل 8(2) کے مد نظر درخواست کو میرٹس لیس ہونے کی وجہ سے خارج کرتا ہوں،

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت کیلئے مقرر

آئین ہماری اور پاکستان کی پہچان ، آئین کے محافظ ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف کیورواٹیو ریویو،اٹارنی جنرل چیف جسٹس کے چمبر میں پیش 

حکومت صدارتی حکمنامہ کے ذریعے چیف جسٹس کو جبری رخصت پر بھیجے،امان اللہ کنرانی

9 رکنی بینچ کے3 رکنی رہ جانا اندرونی اختلاف اورکیس پرعدم اتفاق کا نتیجہ ہے،رانا تنویر

چیف جسٹس کے بغیر کوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا،

سپریم کورٹ نے نیب قوانین کو کالعدم قراردے دیا ,

واضح رہے کہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی متعدد شقوں کو آئین کے برعکس قرار دے دیا.سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کاروائی کرے ،سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں،آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی،پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دے دی گئی ہیں،عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کر دیئے گئے ہیں ، نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن14 کی پہلی ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں ،نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے،تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کرنے کا حکم دیا گیا ہے، نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت مل گئی،سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کیسز جہاں رکے تھے وہیں سے 7 روز میں شروع کیے جائیں،سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی کچھ شقیں کالعدم قراردی ہیں عدالت نے فیصلے میں کہا کہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کی جائیں

نیب ترامیم کیس ،آخری سماعت میں کیا ہوا تھا،پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

Leave a reply