جب وہ اٹھتے ہیں مٹانے خم میخانے کا نام
شورش مئے سے چمک جاتا ہے پیمانے کا نام

اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کے بانی، ممتاز ادیب، دانش ور ، شاعر اور سیاسی رہنما سید سجاد ظہیر 5 نومبر 1905 میں ریاست اودھ کے چیف جسٹس سر وزیر خان کے گھر میں پیدا ہوئے ان کا تعلق لکھنؤ کے ایک ذی علم گھرانے سے تھا 1936ء میں انہوں نے لندن میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بنیاد رکھی جو بہت جلد اردو کی مقبول ترین ادبی تحریک بن گئی۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستان چلے آئے جہاں وہ کچھ عرصے راولپنڈی سازش کیس کے سلسلہ میں پابند سلاسل بھی رہےاس مقدمے سے رہائی کے بعد جولائی 1955ء میں وہ بھارت واپس چلے گئے جہاں بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ان سے بھارت میں سکونت اختیار کرنے کی درخواست کی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سید سجاد ظہیر دوبارہ بھارت کے شہری بن گئے۔

سید سجاد ظہیر نے 13 ستمبر 1973ء کو سوویت یونین کے شہر الماتے قازقستان میں وفات پائی جہاں وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ان کی تصانیف میں لندن کی ایک رات، روشنائی اور پگھلا نیلم خصوصاً قابل ذکر ہیں ، سجاد ظہیر ایک شاعر بھی تھے لیکن ان کی دوسری کتابیں اتنی اہم ہوگئیں کہ ان کا نام شاعر کی حیثیت سے لیا نہیں جاتا۔ انہوں نے پہلی غزل 1952ء میں سنٹرل جیل حیدرآباد میں تخلیق کئے گئے، جو ’’شاہراہ‘‘ کے ستمبر 1955ء کے شمارے میں شائع ہوئے، بہر حال چند اشعار دیکھئے:۔

جب وہ اٹھتے ہیں مٹانے خم کا میخانے کا نام
شورش مئے سے چمک جاتا ہے پیمانے کا نام

تجھے کیا بتائیں ہمدم اسے پوچھ مت دوبارہ
کسی اور کا نہیں تھا وہ قصور تھا ہمارا
وہ قتیل رقص و رم تھی وہ شہید زیروبم تھی
میری موج مضطرب کو نہ ملا مگر کنارا

Shares: