پیپلز پارٹی کو ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت

0
151

پیپلز پارٹی کو ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت

بینظیر بھٹو سے آصف زرداری کو پیپلز پارٹی کی قیادت کی منتقلی کے بعد، پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے نقطہ نظر میں ایک تبدیلی کی،پیپلز پارٹی نچلی سطح کے رابطوں سے ہٹ کر سیاست کے زیادہ لین دین کے انداز کی طرف بڑھی۔ اس طرز سیاست نے پیپلز پارٹی کو قومی سیاسی منظر نامے میں جہاں اپنی موجودگی برقرار رکھنے میں مدد کی، وہیں اس نے پارٹی کی طویل مدتی حکمت عملی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں.

پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں شامل ہونے کے دوران آصف زرداری نے ہوشیاری کے ساتھ بلاول زرداری کو وفاقی وزیرخارجہ بنوا دیا تا ہم مسلم لیگ ن کی مالیاتی پالیسیوں کو مکمل قبول کرنے سے دور رکھا، اس دانستہ طرز عمل نے ایک خاص عملیت پسندی کو ظاہر کیا لیکن ایک مربوط پارٹی حکمت عملی کی ممکنہ کمی کو اجاگر کیا۔

پیپلز پارٹی کا اب ایک چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہاہے، الیکشن کمیشن نے الیکشن کا اعلان کر دیا ہے اور الیکشن سے قبل سیاسی جوڑ توڑ میں پیپلز پارٹی جو توقع رکھ رہی تھی اس سے کوسوں دور ہے، اب اہم شخصیات نے یا اپنی پارٹی بنا لی یا پھر جہانگیر ترین کی پارٹی استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو چکے یا اتحاد کر چکے ، سیاسی افراد کا دوسری پارٹیوں میں جانے کا یہ رجحان اہم کھلاڑیوں کو راغب کرنے اور وسیع البنیاد اتحاد بنانے کی پیپلز پارٹی کی صلاحیت پر سوال اٹھاتا ہے۔دوسری جانب بلوچستان میں پیپلز پارٹی مضبوط ہے تا ہم پنجاب میں اسکی حمایت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ابھی تک پنجاب میں کسی بھی جلسے کا اعلان نہیں کیا ،متوقع طور پر صرف جنوبی پنجاب میں جلسہ کیا جا سکتا ہے، پنجاب روایتی طور پر سیاسی میدان میں اہم ہے ،پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حمایت میں کمی ایک تزویراتی نظر ثانی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے،

وہیں آصف زرداری اور بلاول کے درمیان اختلافات کی باتیں بھی چل رہی ہیں،آصف زرداری نے ایک حالیہ انٹرویو میں بلاول کی سرعام سرزنش کی۔ انتخابات سے چند ماہ قبل سامنے آنے والی پیپلز پارٹی کی یہ اندرونی کشیدگی پارٹی کی قیادت میں ممکنہ ٹوٹ پھوٹ کا اشارہ دیتی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حمایت کافی ہے تا ہم ایم کیو ایم اور ن لیگ یا ایم کیو اور تحریک انصاف میں سے کسی ایک کا اتحاد اگر ہو گیا تو یہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے،ایسے میں پیپلز پارٹی کا اثرورسوخ سندھ میں بھی مزید کم ہو سکتا ہے

موجودہ سیاسی صورتحال کی نزاکت کو تسلیم کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے 56ویں یوم تاسیس کے موقع پر کوئٹہ میں ایک عظیم الشان جلسے میں شریک ہوں گے، یہ تقریب پیپلز پارٹی کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنی سیاسی قوت کو دوبارہ ظاہر کرے اور مختلف صوبوں میں اسے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک نئے وژن کو بیان کرے۔

جیسے جیسے سیاسی منظر نامہ تیار ہو رہا ہے، پیپلز پارٹی کو ایک واضح اور مربوط حکمت عملی اپنانا ہو گی جو کہ مختصر مدتی چالوں سے بالاتر ہو۔ عصر حاضر کی پاکستانی سیاست کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے پارٹی کی اپنی قیادت کو ڈھالنے، متحد کرنے اور ووٹرز سے جڑنے کی صلاحیت بہت اہم ہوگی۔

Leave a reply