(تجزیہ شہزاد قریشی)
کیا عجب تماشا ہے ۔پوری قوم پی ٹی آئی کے ایک سینئر عہدیدار کے ایک بولے گئے بیہودہ الفاظ کو اپنا تکیہ کلام بنا چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان بیہودہ الفاظ کو پذیرائی مل رہی ہے ۔افسوس صد افسوس کیا کسی مذہب معاشرے میں اس کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟ الفاظ بولنے والے شخص کو قومی ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر ہمارا معیار یہ ہے تو پھر قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ کچھ سیاستدان پاک فوج اور جملہ اداروں کو سرعام سوشل میڈیا پر اور کچھ پردہ اسکرین کے پیچھے حملہ آور ہیں افسوس جس فوج نے ملکی سلامتی کی خاطر قربانیاں دیں کل ہی کی بات ہے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشن کر کے اس ملک کو دہشت گردی اور انتہاپسندی سے آزاد کروایا ایک عالم ان واقعات سے آگاہ ہے پاک فوج کی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ملک کی نوجوان نسل کی ہم کیا تربیت کر رہے ہیں پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی ریاست کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
ملکی سیاستدانوں کی رنگین داستانیں، معاشقوں کی کہانیاں، واہیات کتابیں پھر اس قوم اور ملک پر ظلم یہ ہے کہ واہیات کتابیں لکھنے والوں کے انٹرویو ، خدا کی پناہ سستی شہرت حاصل کرنے والوں کو موت یاد نہیں پھر موت کے بعد زندہ ہو کر خدا کی عدالت میں پیش ہونا یاد نہیں کیا ان کے گھروں میں مائیں، بیٹیاں اور بچے نہیں؟ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے خوف کھائیں اپنا طرز زندگی بدل ڈالیں۔ انسانیت کی فلاح کے لئے کام کریں۔ اس ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں ذرا سوچئے! آج ہماری معیشت کہاں کھڑی ہے ملک کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت ہے جو وڈیروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں ہے اور وہی حکومتیں چلاتے ہیں ٹیکس بھی نہیں دیتے بڑے بڑے کاروباری بنکوں سے قرض لیتے ہیں اور قرضے معاف کرواتے ہیں۔ جن سیاستدانوں نے طرح طرح کے نعرے لگا کر عوام سے ووٹ لئے وہ پارلیمنٹ ہائوس میں جا کر جمہور کے مسائل کو نظر انداز کر کے اپنے ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائے۔ کوئی اصلاحات نہیں کیں۔ بچوں کو کوالٹی تعلیم، نہ ہی صحت کے لئے بنیادی سہولتیں۔ نوجوانوں کو فنی اور ہنر مندی کی تعلیم دینے میں ناکام اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں ناکام۔ ملک اور عوام کے مسائل دیکھیں کیا دنیا کی قومیں اسی طرز سے حکومتیں چلاتے ہیں؟