تاحیات نااہلی کیس،سپریم کورٹ میں دلائل مکمل، فیصلہ محفوظ

0
226
Supreme Court

سپریم کورٹ ،سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کا حصہ ہیں،عدالتی کاروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی جارہی ہے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نااہلی سے متعلق انفرادی مقدمات اگلے ہفتے سنیں گے، اس وقت قانونی اور آئینی معاملے کو دیکھ رہے ہیں، جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا،وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ سپریم کورٹ کے سامنے بنیادی معاملہ اسی عدالت کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں سوال اٹھایا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انفرادی لوگوں کے الیکشن معاملات آئندہ ہفتے سنیں گے، ہو سکتا ہے تب تک ہمارا اس کیس میں آرڈر بھی آچکا ہو، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ کیمطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جی، ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا،کامن لا سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی،کسی کا یوٹیلٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہوجاتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 62 کا اطلاق الیکشن سے پہلے ہی ہوتا ہے یا بعد بھی ہو سکتا ہے؟

ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز تک محدود کیوں کر رہے ہیں،ہم آئینی تاریخ کو ، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں،آئین پر جنرل ایوب سے لیکر تجاوز کیا گیا، مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے، پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہل؟ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں،کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اسکا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کردیں؟ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟ پاکستان کی پارلیمان کا جو امتحان ہے، کیا وہ دنیا کی کسی پارلیمان کا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے،اسکا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کردیں؟ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا دو سال ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اگر کوئی فراڈ کرتا ہے تو اس کا مخالف ایف آئی آر درج کرتا ہے،کیا سزا تاحیات ہوتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب آئین نے خود طے کیا نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے، نیب قانون میں بھی سزا دس سال کرائی گئی، آئین وکلاء کیلئے نہیں عوام پاکستان کیلئے ہے،آئین کو آسان کریں،آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں، فلسفانہ باتوں کے بجائے آسان بات کریں،اگر کوئی سونا چند گرام لکھوایا تو کیا ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا ہے کون ایماندار ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایک مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر عدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کر دے تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈیکلریشن کا عدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے؟جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہوچکے انہیں دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈیکلریشن حتمی ہوچکا ہے تو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہونگے؟
مدت پانچ سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا ہم 232 تین کو ریڈ ڈاون کرسکتے ہیں، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ یہ بہت مشکوک نظریہ ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ 232تین کو اسطرح طے کرے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی تو سزا پانچ سال ہوگی، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ 185 کے تحت اپیلیں سن رہا ہے، 232 تین کو اگلی پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے،عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگر سمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قرار دیا گیا تو قانون کا اطلاق ہوگا،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم سیکشن 232 دو کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا زکر نہیں ہے، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈیکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی،

پورا پاکستان 5 سال نا اہلی مدت کے قانون سے خوش ہے،کسی نے قانون چیلنج ہی نہیں کیا،چیف جسٹس
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فیصل واوڈا کیس میں آپکا کیا خیال ہے ، جسٹس منصور علی خان نے کہا کہ وہاں ڈکلیریشن نہیں تھا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب پارلیمنٹ نے نا اہلی کی مدت طے کرائی تو یہ سوال تو اکیڈمک سوال ہوا کہ نا اہلی کی مدت کیا ہو گی ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہو گی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ کہہ چکا ہے نا اہلی 5 سال ہو گی ، کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس دیا گیا تھا؟ ریکارڈ منگوا لیں , جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 232 دو عدالتی معاون کے مطابق سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو بے اثر کر دیا گیا ، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے ، سیکشن 232 تین چیلنج ہی نہیں ، امریکہ میں قانون کالعدم ہو تو کانگرس نیا قانون بنا لیتی ہے، امریکی کانگرس اپنی عدالت کو قائل کرتی ہے کہ اپنے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس ہونے تک مدت کم نہیں ہوسکتی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے ڈیکلریشن کی مدت پانچ سال کی گئی ہے،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نااہلی کی مدت مناسب وقت کیلئے ہونی چاہیے تاحیات نہیں، اگر کوئی قانون چیلنج کرے پھر عدالت دیکھے گی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پورا پاکستان 5 سال نا اہلی مدت کے قانون سے خوش ہے،کسی نے قانون چیلنج ہی نہیں کیا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کریں کیونکہ بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا، سربراہ پی ٹی آئی کو نا اہل نہیں کیا گیا ،شکیل اعوان، خواجہ آصف، شیخ رشید کیسز دیکھیں تو تا حیات نا اہلی کا فیصلہ لکھنے والے جج آہستہ آہستہ مؤقف بدلتے رہے ،

نواز شریف کا نام لینے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کا نام نہ لیں،وکیل وہ کیس نہیں لڑتا جس کی فیس نہ ملی ہو
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ایسی کوئی مثال ہے سمیع اللہ بلوچ کے بعد کیس کو تا حیات نا اہل کیا گیا ہو ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ڈکلیریشن کو ختم کیا گیا ، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسی کوئی مثال نہیں ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ثناء اللہ بلوچ کے لیے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں کچھ کہا گیا ؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نواز شریف کو نا اہل کیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کا نام نہ لینا ، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تنخواہ لینے کا سہارا لے کر نا اہلی کی گئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ بات نا کریں جو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں ،وکیل وہ کیس نہیں لڑتا جس کی اسے فیس نہ ملی ہو ،

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالتی فیصلے تک ہر شخص کی صادق اور امین ہوگا، ایک دو غلطیوں سے کسی کو بے ایمان قرار نہیں دیا جا سکتا،اگر کوئی غلطی ہو بھی تو پانچ سال کی مدت مقرر کر دی گئی ہے، ایسا کوئی ڈیکلریشن آج تک نہیں آیا کہ کوئی صادق اور امین نہ ہو، جرائم پیشہ افراد کو ایماندار اور امین قرار نہیں دیا جا سکتا، نااہلی کا ڈیکلریشن شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہی دیا جا سکتا ہے،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کسی کو نااہل قرار نہیں دے سکتیں،

تاحیات نااہلی کیس، وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز، اٹارنی جنرل کے دلائل
دوبارہ وقفے کے بعد سماعت ہوئی،اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کر دیا،اٹارنی جنرل نے 2015 کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ کورٹ آف لا کیا ہو گی 2015 میں سات رکنی بنچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لا کے سوال کا جواب نہیں دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے، اس کے بعد مگر یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیارمیں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ آف لاء سے متعلق سمیع اللہ بلوچ نے فیصلہ نہیں کیا لیکن اسحاق خاکوانی کیس میں 2015 میں یہ معاملہ اٹھا تھا، اسحاق خاکوانی کیس میں 7 رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں نااہلی کی ڈکلئیریشن پر سوالات اٹھائے، اسحاق خاکوانی کیس میں یہ کہا گیا کہ نااہلی سے متعلق سوالات کا آئندہ کسی کیس میں عدالت فیصلہ کرے گی، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو سوالات اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے ان کا فیصلہ ہم کریں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہو گا،عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیریشن کس نے دینی ہے،عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لاء کیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسحاق خاکوانی کیس میں سات رکنی بنچ فیصلہ کر چکا تھا تو پانچ رکنی بنچ نے وہ فیصلہ کیوں نہ دیکھا؟سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ سات رکنی بنچ کے فیصلے کو کیسے نظرانداز کر سکتا ہے؟سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے ماضی کے فیصلے کو نظرانداز کر کے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کر دیا،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سابق جسٹس عمر عطا بندیال کے سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے پر سوالات اٹھا دیئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خاکوانی کیس میں سات رکنی بنچ تھا، سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی بنچ تھا،سات رکنی بنچ نے کہا یہ معاملہ لارجر بنچ دیکھے گا، بعد میں پانچ رکنی بنچ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں پانچ رکنی بنچ نے اس پر اپنا فیصلہ کیسے دیا؟یاتو ہم کہیں سپریم کورٹ ججز کا احترام کرنا ہے یا کہیں نہیں کرنا،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاکوانی کیس میں بھاری نوٹ لکھا، میں اس نوٹ سے اختلاف کر نہیں پا رہا انہوں نے کہا ہم اس معاملے پر کچھ نہیں کر سکتے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ جو بات کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے ابھی ہم نے پہلی رکاوٹ ہی عبور نہیں کی، ڈیکلیریشن کا طریقہ کار کیا ہو گا یہ ہم کیسے طے کر سکتے ہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے طے کر دی ہے پانچ سال کی مدت، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے صرف نااہلی کی مدت کا تعین کیا ہے،نااہلی کی ڈکلئیریشن اور طریقہ کار کا تعین ابھی نہیں ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے سوال پر اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ منصور صاحب اس کا جواب یہ دیں کہ پارلیمنٹ آئندہ یہ بھی طے کر لے گی،عدالتیں قانون نہیں بناتیں، عدالتیں صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کا جائزہ لے سکتا ہے کہ قانون کے مطابق درست ہے یا نہیں، آئین بنانے کے ماہرین نے 1973 کا آئین بنا دیا،پھر ٹہلتے ہوئے آئے کہا ایسی چیزیں ڈال دیں کہ سر نہ اٹھا سکیں،جس کو چاہیں نااہل کردیں ،صحیح یا غلط باسٹھ ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا،نااہلی کی مدت کا تعین نہ کرنا انکا فیصلہ تھا میں کیوں کروں، مبشر حسن کیس میں سترہ ججز نے 62 ون ایف کو خود سے لاگو ہونے نہ ہونے کا کہا، آج ہم سب بھی بیٹھ جائیں تو سترہ ججز نہیں بنتے

تاحیات نااہلی کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آگئے،اور کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پیش ہو رہا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خوش آمدید،کب سے انتظار کر رہے تھے کہ کوئی سیاسی جماعت آئے،وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم فرد واحد کے لیے کی گئی، آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق آئینی ترمیم لازمی ہوگی،الیکشن ترمیمی ایکٹ میں خامیاں ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ سے مسئلہ ہے تو اسے چیلنج کریں،تحریک انصاف نے ہمارے سامنے کوئی درخواست دائر نہیں کی، جسٹس مندوخیل نے پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے،وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہم تو آج کل دیر ہی کر رہے ہیں،

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مختصر فیصلہ جلد سنایا جائیگا،ممکنہ طور پر آج فیصلہ نہیں سنایا جائیگا،

تاحیات نااہلی کے معاملے کی سماعت کیلئے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل

نااہلی کی درخواست پر فیصل واوڈا نے ایسا جواب جمع کروایا کہ درخواست دہندہ پریشان ہو گیا

الیکشن کمیشن کے نااہلی کے اختیارات،فیصل واوڈا نے تحریری معروضات جمع کروا دیں

Leave a reply