اسلام آباد: پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان کا معاملہ،سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت ہو رہی ہے-
باغی ٹی وی : وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وکیل حامد خان نے دلائل شروع کئے،دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ لاہور میں کیس زیر سماعت تھا تو پشاور ہائیکورٹ کیوں گئے،حامد خان نے کہا کہ دونوں کیسز الگ ہیں، الیکشن کمیشن ادارہ ہے متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے،الیکشن کمیشن کی اپیل ناقابل سماعت ہے-
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 185 میں اپیل دائر کرنے کیلئے متاثرہ فریق کا ذکر موجود ہے؟ حامد خان نے کہا کہ اپیل کیلئے متاثرہ فریق کا لفظ موجود نہیں ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کو تحلیل کردے تو کیا ادارہ اپیل نہیں کر سکے گا؟،کمیشن کے کسی رکن کو ہٹایا جائے تو کیا کمیشن اپیل نہیں کر سکتا؟معاملہ اگر کسی رکن کی تعیناتی غیرقانونی ہونے کا ہو تو الگ بات ہے-
حامد خان نے کہا کہ معلومات تک رسائی کے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالت درخواست گزار نہیں ہوسکتی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے لئے پتہ نہیں اچھی خبر ہے یا بری کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کا وقت سات بجے تک بڑھا دیا ہےآپ اپنے دلائل مکمل کریں فیصلہ بھی کرنا ہے،ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں درخواست دائر نہیں کر سکتی،الیکشن کمیشن کیخلاف کیسز ہوسکتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر ہائی کورٹ خود اپیل کرے تو بات مختلف ہوگی، الیکشن کمشین نے انتخابی نشان جمع کرانے کیلئے سات بجے تک کا وقت دیا ہے،یہ پتا نہیں آپ کیلئے اچھی خبر ہے یا بری-
حامد خان نے کہا کہ اس حوالے سے استدعا دلائل کے آخر میں کروں گا، چیف جسٹس نے حامد خان کو ہدایت کی کہ آپ اپنے دلائل جلدی مکمل کریں،حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امتیازی سلوک روا رکھا،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے امتیازی سلوک کا معاملہ پٹیشن میں نہیں اٹھایا، 2021 میں آپ حکومت میں تھے الیکشن کمیشن تب سے الیکشن کا کہہ رہا ہے انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں،پھر آپ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں امتیازی سلوک ہو رہا ہے،آپ کی پارٹی کے اپنے لوگ انتخابات کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جسٹس وجیہہ الدین والا انتخاب کس سال میں ہوا تھا،اس انتخاب میں کتنے ایشوز ہوئے تھے یاد ہے،الیکشن کمیشن کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں-
حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے بااختیار ہونے میں کوئی دو رائے نہیں،اختیارات مختلف حالات کے مطابق دیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کےساتھ دوہرا معیار اپنایا،الیکشن کمیشن نے کسی دوسری جماعت کے انتخابات کی اس طرح سکروٹنی نہیں کی، چیف جسٹس نے کہا کہ جن کی سکروٹنی نہیں ہوئی انہیں فریق بناتے اور الگ الگ کیس کرتے، ایک سیاسی جماعت کا وجود ہی الیکشن کمیشن نے ختم کر دیا ہے؟ حامد خان نے کہا کہ درخواست گزاروں نےخود دستاویزات لگائی ہیں دو جماعتوں کی جہاں بلامقابلہ انتخاب ہوا-
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان جماعتوں کیخلاف کوئی شکایت آئی یا کمیشن سوموٹو لیتا؟ حامد خان نے کہا کہ شکایت کنندہ تو ہمارے ملک میں مل ہی جاتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس وجیہ الدین نے بھی انتخابات کرائے تھے بہت شور پڑ گیا تھا، حامد خان نے کہا کہ سال 2011/12 کا پارٹی الیکشن میں نے کرایا تھا وجیہ الدین ٹربیونل تھے،انٹراپارٹی انتخابات اندرونی معاملہ ہے الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا،پشاور ہائیکورٹ میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات میں مداخلت نہیں کر سکتا-
چیف جسٹس نے حامد خان کو دلائل جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی حامد خان نے کہا کہ الیکشن لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے چیف جسٹس نے کہا کہ چودہ درخواست گزار بھی یہی حق مانگ رہے ہیں،حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کیسے پارٹی کے اندرونی معاملے میں مداخلت کر سکتا ہے،الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو ٹارگٹ کر رہا ہے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو کیوں انتخابات سے باہر رکھنا چاہتا ہے، الیکشن کمیشن کروڑوں ووٹرز کو حق سے کیسے محروم کر سکتا ہے-
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو ڈرامائی الفاظ ہیں، اگر یہ چودہ لوگ الیکشن لڑتے تو ووٹرز کے حقوق کیسے متاثر ہوتے؟جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں تو الیکشن کیسے لڑتے،آپ نے خود مانا تھا کہ اکبر بابر بانی رکن ہیں، بانی رکن اپنی پارٹی کےخلاف کیسے عدالتوں میں جا چکا ہے،اکبر بابر کو شوکاز جاری کیا گیا تھا-
چیف جسٹس نے کہا کہ شوکاز نوٹس دکھا دیں،حامد خان نے کہا کہ اکبر بابر کا پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں ہے، تین دن پہلے ایک بانی ممبر ایم کیو ایم میں شامل ہوا ہے، کیا بانی ممبر ہمیشہ ہی رکن رہ سکتا ہے؟ ،چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں کیس انتخابی نشان کا ہے اندرونی طریقہ کار کا نہیں، حامد خان نے کہا کہ پارٹی اگر کسی کو ممبر نہ مانے تو اس کا کام ہے خود کو عدالت میں رکن ثابت کرے،چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب وقت زیادہ لگے گا تو نتائج کیلئے بھی تیار رہیں،حامد خان نے کہا کہ مقبول سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کرنے سے ووٹرز کے حقوق متاثر ہونگے، آئین قانونی اور سیاسی دستاویز ہے،پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے دلائل مکمل کر لئے-
پی ٹی آئی کیخلاف ایک اور درخواست گزار نورین فاروق عدالت میں پیش ہوئیں،دوران سماعت نو ین فاروق نے کہا کہ 1999 میں پی ٹی آئی کا حصہ بنی اور خواتین ونگ کی مقامی صدر تھی نعیم الحق کی سیکرٹری کےطور پر بھی فرائض انجام دیتی رہی ہوں کسی اور جماعت کا حصہ نہیں بنی،الیکشن لڑنا چاہتی تھی لیکن موقع نہیں ملا، چاہتی تھی ہائی لائٹ ہو جاؤں عمران خان مجھے پارٹی کا اثاثہ اور انسائیکلوپیڈیا کہتے تھے-