اردو کے ممتاز شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار سرور بارہ بنکوی

سروربارہ بنکوی کے دو شعری مجموعے سنگ آفتاب اور سوزگیتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
0
114
poet

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

اردو کے ممتاز شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار سعید الرحمان المعروف سرور بارہ بنکوی 30 جنوری 1919ء کو بارہ بنکی (یو پی۔بھارت) میں پیدا ہوئے قیام پاکستان کے بعد پہلے کراچی اور پھر ڈھاکا میں سکونت اختیار کی، جہاں انہوں نے فلم تنہا کے مکالمے لکھ کر اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا اور پھرچندا، تلاش، ناچ گھر، کاجل ، بہانہ، ملن، نواب سراج الدولہ، تم میرے ہو، آخری اسٹیشن،چاند اور چاندنی، احساس، سونے ندیا جاگے پانی اور کئی دیگر فلموں کے نغمات لکھے جو بہت مقبول ہوئے اسی دوران انہوں نے تین فلمیں آخری اسٹیشن، تم میرے ہو اور آشنا پروڈیوس اور ڈائریکٹ بھی کیں۔

آخری دنوں میں وہ بنگلہ دیش کے اشتراک سے ایک فلم ’’کیمپ 333‘‘ بنانا چاہتے تھے، وہ اسی سلسلے میں ڈھاکا گئے ہوئے تھے کہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث 3 اپریل 1980ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا جہاں وہ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے،سروربارہ بنکوی کے دو شعری مجموعے سنگ آفتاب اور سوزگیتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔

منتخب کلام

اور کوئی دم کی مہماں ہے گزر جائے گی رات
ڈھلتے ڈھلتے آپ اپنی موت مر جائے گی رات

زندگی میں اور بھی کچھ زہر بھر جائے گی رات
اب اگر ٹھہری رگ و پے میں اتر جائے گی رات

جو بھی ہیں پروردۂ شب جو بھی ہیں ظلمت پرست
وہ تو جائیں گے اسی جانب جدھر جائے گی رات

اہل طوفاں بے حسی کا گر یہی عالم رہا
موج خوں بن کر ہر اک سر سے گزر جائے گی رات

ہے افق سے ایک سنگ آفتاب آنے کی دیر
ٹوٹ کر مانند آئینہ بکھر جائے گی رات

ہم تو جانے کب سے ہیں آوارۂ ظلمت مگر
تم ٹھہر جاؤ تو پل بھر میں گزر جائے گی رات

رات کا انجام بھی معلوم ہے مجھ کو سرورؔ
_______

تو عروس شام خیال بھی تو جمال روئے سحر بھی ہے
یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے

یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں
وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی راہ گزر بھی ہے۔

بہ ہزار دانش و آگہی مری مصلحت ہے ابھی یہی
میں سرورؔ رہرو شب سہی مری دسترس میں سحر بھی ہے

_______
ہم لوگ نہ الجھے ہیں نہ الجھیں گے کسی سے
ہم کو تو ہمارا ہی گریبان بہت ہے
_______

فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ

ان حسیں آنکھوں سے اب للہ آنسو پوچھ لو
تم بھی دیوانے ہوئے جاتے ہو دیوانوں کے ساتھ

زندگی نذر حرم تو ہو چکی لیکن سرورؔ
ہر عقیدت قازۂ عالم صنم خانے کے ساتھ

منقول

Leave a reply