خواتین امیدوار کم ، پارٹیوں کو انتخابی نشان کیوں ملا؟ عورت فاونڈیشن

خواتین کو 5 فیصد عام نشستوں کا ٹکٹ دینا ایک قانونی شرط ہے
0
239

اسلام آباد: عورت فاؤنڈیشن نے عام انتخابات 2024 میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کی خلاف ورزی پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط لکھ دیا-

باغی ٹی وی : عورت فاؤنڈیشن، پاکستان میں خواتین کے حقوق اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرنے والی سول سوسائٹی کی تنظیم ہے۔ماضی کی طرح یہ تنظیم حالیہ الیکشن کے حوالے سے بھی ایک گہری نظر رکھے ہوئی ہے اور ایک تجزیے کے مدنظر جو کہ الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کی روشنی میں کیا گیا ہے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں نے الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کی تعمیل نہیں کی، جس کے مطابق عام انتخابات 2024 میں ہر صوبائی اور قومی اسمبلی میں خواتین کو کم از کم پانچ فیصد جنرل نشستوں کے ٹکٹ دیئے جانا ایک قانونی تقاضا تھا۔

قومی اسمبلی (این اے) کی 266 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینے والی8 سیاسی جماعتوں کے عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے کیے گئے اس تجزیے میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ(ن)نے جنرل نشستوں پر خواتین کو 5 فیصد سے زیادہ ٹکٹ دے کر قانونی تقاضے کو پورا کیا ہے، اور باقی 6 جماعتیں، بشمول، پی پی پی پی،جمعیت العلمائے اسلام (ف)،جماعت اسلامی ،عوامی نیشنل پارٹی ،بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اورتحریک لبیک پاکستان الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

وفاقی کابینہ نے پی آئی اے کی تنظیم نو کی منظوری دے دی

تجزیہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایم کیو ایم نے 73 ٹکٹیں مرد امیدواروں کو دی ہیں، جن میں سے 7 خواتین کو دیے گئے، خواتین کے ٹکٹوں کا تناسب 9.59 ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے مجموعی طور پر 205 جنرل نشستوں کے ٹکٹ دیے ہیں جن میں سے 189 مردوں اور 16 خواتین کو 7.80 فیصد کے ساتھ ٹکٹ دیے گئے۔ پی پی پی پی نے 245 این اے ٹکٹ دیے ہیں، جس میں 234 مرد اور 11 خواتین کو شامل ہیں، جو کہ 4.5 فیصد کا تناسب بنتا ہے۔ جماعت اسلامی نے این اے کے 229 ٹکٹ دیے ہیں، جسمیں 219 مرد اور 10 خواتین شامل ہیں، جن کا تناسب 4.37 فیصد بنتا ہے-

اے این پی نے 59 ٹکٹ دیے ہیں جن میں سے صرف دو جنرل نشستوں کے ٹکٹ خواتین کے لیے ہیں، جن کی فیصد 3.33 بنتی ہے۔ TLP (تحریک لبیک پاکستان) نے 220 ٹکٹوں میں سے صرف 2 خواتین کو ٹکٹ دیے ہیں اور اسکا تناسب 0.09% بنتا ہے۔ جے یو آئی (ف) اور (بی این پی) نے قومی اسمبلی کے لیے ایک بھی ٹکٹ خواتین کو نہیں دیا، جب کہ جے یو آئی (ف) نے 127 مردوں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ بی این پی نے مردوں کو 11 سیٹیں دی ہیں۔

خاور مانیکا اور عمران خان کی اڈیالہ جیل میں ہونے والی بات چیت منظر …

خیبر پختونخواہ صوبائی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ (ن) ،جماعت اسلامی، اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں، اور انہوں نے عورتوں کوپانچ فیصد سے کم ٹکٹ دئیے ہیں۔

پنجاب صوبائی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پی پی پی پی ،جماعت اسلامی ،تحریک لبیک پاکستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں، اور انہوں نے عورتوں کوپانچ فیصد سے کم ٹکٹ دئیے ہیں۔

سندھ صوبائی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ اورجماعت اسلامی نے عورتوں کوپانچ فیصد سے کم ٹکٹ دئے ہیںاور لیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

بلوچستان اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پی پی پی پی ،تحریک لبیک پاکستان، جمعیت العلمائے اسلام (ف) اور ،عوامی نیشنل پارٹی ا لیکشن کمیشن کے مقرر کردہ ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں، اور انہوں نے عورتوں کوپانچ فیصد سے کم ٹکٹ دئیے ہیں۔

سوک چیمبر آف دی رشین فیڈریشن کے ارکان الیکشن کمیشن کا دورہ

واضح رہے کہ خواتین کو 5 فیصد عام نشستوں کا ٹکٹ دینا ایک قانونی شرط ہے، اور اگر سیاسی جماعتیں اسے پورا نہیں کرتیں تو انہیں انتخابی نشان نہیں دیا جا سکتا، اور سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ ہم یہ بھی بتانا چاہیں گے کہ قومی اسمبلی میں انتخاب لڑنے والے امیدواروں کی حتمی فہرست چند روز قبل جاری کی گئی تھی، جو کہ شیڈول سے بہت زیادہ ہے، اس لیے ابھی تجزیہ کیا جا رہا ہے۔یہ حقیقت بھی مدنظر رکنی چاہیے کہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک سیاسی جماعتوں کی طرف سے پیش کردہ فہرستیں اپنی ویب سائٹ پر نہیں ڈالی ہیں۔

یہ بھی واضح رہے کہ الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کو سیاسی جماعتوں کے ضابطہ اخلاق کے نکتہ نمبر 6 کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت ہر اسمبلی میں خواتین کو 5 فیصدعام نشستوں پر ٹکٹ دے گی۔
یہ بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ سیاسی جماعتیں اس ذمہ داری سے آگاہ نہیں ہیں کیونکہ تمام جماعتیںہر انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن کو حلف نامہ جمع کراتی ہیں کہ انہوں نے خواتین کو 5% ٹکٹیں الاٹ کی ہیں ۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہے اور پاننچ فیصد سے کم ٹکٹ دیے ہیں، تو وہہ ایلیکشن کمیشن کو ”غلط اطلاعات فراہم ‘ کرنے کی مرتکب ہوئی ہیں، جو ایک سنگین خلاف ورزی ہے۔ دوئم ، یہ کہ پی پی پی پی، مسلم لیگ (ن)،پی ٹی آئی، اے این پی اور حتیٰ کہ ٹی ایل پی سمیت مرکزی دھارے کی بیشتر جماعتوں نے عام انتخابات 2018 میں اس قانونی تقاضے کو کو پورا کیا تھا۔

پولنگ کے دوران یقینی بنایا جائے کہ میڈیا انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے،الیکشن …

ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ انتخابی قانون کی اس خلاف ورزی کا نوٹس لے، کیونکہ 5% کی پابندی پہلے سے ہی ایک کم حد تھی، اور اگر پارٹیاںاپنے بلند بانگ دعووں کے باوجود خواتین کو انتخابی عمل میں مرکزی دھارے میں لانے کے مواقع فراہم کرنے میں ان کو نظرانداز کرتی رہیں، یعنی نصف آبادی کو ان کے جائز حق سے محروم رکھتی ہیں تویہ جمہوریت کے فروغ کے لیے تشویشناک بات ہے۔

یہ وقت ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان خواتین کو وہ اہمیت دے جس کی وہ حقدار ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں پر اپنے قوانین کو بلا تفریق نافذ کرے۔ہمارا مقصد عورتوں کے حوالے سے آئین اور قانون میں موجود شقوں کا تحفظ کرنا ہے، اور ہم الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں، اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کے خواہاں ہیں۔

حساس پولنگ اسٹیشن پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے والی ٹیم اور واپڈا اہلکار …

عورت فاؤنڈیشن نے کہا کہ (یہ واضح رہے کہ یہ تجزیہ ECP کی ویب سائٹ پر دستیاب فارم 33 پر مبنی ہے جن کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے،اور، چونکہ ECP نے سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی فہرست ابھی تک اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کی ہے ، اس لیے غلطی کا معمولی امکان ہے، اس لیے ECP سے گزارش ہے کہ ہمارے تجزیے کا اپنے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے اعداد و شمار کا جایزہ لے، اور اس کی تصحیح کرے)

Leave a reply