26 فروری تاریخ کے آئینے میں
1531ء ۔اسپین کے شہر لسبن میں ہولناک زلزلہ سے بیس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے، 1797ء ۔بینک آف انگلینڈ نے ایک پاونڈ کا پہلا نوٹ جاری کیا، 1924ء ۔جرمنی کے شہرمیونخ میں ہٹلر کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا، 1952ء ۔برطانیہ نے ایٹم بم تیار کیا۔
1980ء – پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی، 1984ء ۔بیروت سے امریکی فوجی دستوں کی واپسی صدر ریگن نے انیس سو بیاسی میں اپنی فوج کو بیروت میں قیام امن کے لیے بھیجا تھا، 1991ء ۔ٹم برنرز لی نے پہلا ویب براوزر ورلڈ وائب ویب متعارف کرایا۔، نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے باہر26فروری 1993 کو ہونے والے دھماکے میں 6افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔۔
2004ء ۔امریکی نے اپنے شہریوں کو تئیس سال بعد لیبیا کاسفر کرنے کی اجازت دی، 2009ء ۔شریف برادران کی نااہلی کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے اراکین کا داخلہ ممنوع ، اسپیکر نے اسمبلی کے باہر سیڑھیوں پراجلاس کی صدارت کی۔
26 فروری 1958 کو ضلع خیرپور میں خیرپور میرس سے پندرہ میل کے فاصلے پر کوٹ ڈیجی کے مقام پر ایک ایسی قدیم تہذیب کے آثار دریافت ہوئے جو موئن جودڑو کی تہذیب سے بھی پرانے تھے۔یہ دریافت شدہ آثار 600 فٹ طویل اور 400 فٹ عریض رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ یہ علاقہ دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک حصہ شہر اور قلعے پر جبکہ دوسرا حصہ عوام کے مکانات پر مشتمل تھا۔ کوٹ ڈیجی کی ایک اور وجہ شہرت اس کا قلعہ ہے جسے دنیا کے چند بڑے قلعوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس قلعہ کی تعمیر 1797ء میں شروع ہوئی اور 32 سال میں مکمل ہوئی۔ یہ قلعہ پانچ ہزار فٹ لمبا، تین ہزار فٹ چوڑا اور زمین سے 70 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ اس قلعہ کو قلعہ احمد آباد بھی کہتے ہیں جو کوٹ ڈیجی کا پرانا نام ہے۔
2019ء۔۔۔پلوامہ ڈرامے کے بعد بھارتی جارحیت اور پاکستان کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کو دو سال بیت گئے ہیں۔ بھارت نے 26فروری 2019 کو بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں گھسے لیکن شاہینوں سے بچنے کے لیے اپنا پے لوڈ گرا کر بھاگ نکلے جس سے چند درختوں کو نقصان پہنچا۔ اگلے ہی دن پاکستان نے دن کی روشنی میں دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔پاک فضائیہ کے جوانوں نے جرات اور بہادری کے ساتھ بھارتی اہداف کو نشانہ بنایا۔27 فروری کو بھارتی ائیر فورس کے طیارے نے پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کی۔ جس پر پاک فضائیہ نے بھارتی ائیر فورس کے طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کرلیا۔بھارت نے 26 فروری 2019 کو بالاکوٹ کے مقام جابا پر مبینہ دہشتگردی کے کیمپ پر نام نہاد فضائی حملے کا ڈرامہ رچایا۔جابہ ضلع مانسہرہ کے ایک گاؤں کا نام ہے جو شہر سے تقریباً20کلو میٹر کی مصافحت پر بالاکوٹ روڈ پر واقع ہے اور مظفرآباد تھانے کی حدود میں آتا ہے،2020ء۔۔پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا،2024ء۔۔مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئیں-
26 فروری کو پیدا ہونے والی چند مشہور شخصیات
1802ء وکٹر ہیوگو ، فرانسیسی مصنف، شاعر، ڈراما نگار، سیاستدان اور انسانی حقوق کے کارکن , وہ فرانسیسی زبان کا سب سے عظیم مصنف مانا جاتا ہے۔ شروع میں شاعری اُس کی وجہ شہرت بنی مگر بعد میں اُس نے ناول اور ڈراموں کو بھی بہت شہرت ملی۔ (وفات: 22 مئی 1885ء)
1902ء ابیسن عباس بمعروف اندجار اسمار ، انڈونیشین نژاد ملائشی صحافی، فلم ہدایت کار، ڈراما نگار، منظر نویس (وفات: 20 اکتوبر 1961ء)
1903ء گیلیو ناٹا ، نوبل انعام برائے کیمیاء (1963ء) یافتہ اطالوی کیمسٹ، انجینئر، موجد، استاد جامعہ ، یہ انعام انہیں جرمن کیمیاء دان کارل زیگلر کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا، جس کی وجہ ان دونوں کی جانب سے پولی مر پر کیا گیا تحقیقی کام تھا۔ (وفات: 2 مئی 1979ء)
1909ء طلال بن عبداللہ ، ہاشمی خاندان سے تعلق رکھنے والا (20 جولائی 1951ء تا 11 اگست 1952ء) دوسرا شاہ اردن ، جب صحت کی وجوہات (مبینہ طور پر انفصام) کی وجہ سے اس کے بیٹے حسین بن طلال حق میں دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ (وفات: 7 جولائی 1972ء)
1922ء منموہن کرشنا ، بھارتی فلمی اداکار (وفات 3 نومبر: 1990ء)
1928ء آرئیل شارون ، اسرائیلی جنرل اور سیاستدان ، (13 اکتوبر 1998ء تا 6 جون 1999ء) وزیر خارجہ ، (7 مارچ 2001ء تا 14 اپریل 2006ء) 11واں اسرائیلی وزیرِ اعظم (وفات: 11 جنوری 2014ء)
1933ء سر جیمز مائیکل گولڈ سمتھ ، انگریزی نژاد فرانسیسی سرمایہ کار و سیاستدان، والد جمائما گولڈ سمتھ (19 جولائی 1994ء تا 19 جولائی 1997ء) رکن یورپی پالیمان (وفات: 18 جولائی 1997ء)
1940ء عزالدین علیہ ، تیونس نژاد فرانسیسی ڈریس اور شو ڈیزائنر (وفات: 18 نومبر 2017ء)
1946ء احمد حسان زیول ، نوبل انعام برائے کیمیاء (1993ء) یافتہ مصری نژاد امریکی کیمسٹ، محقق و استاد جامعہ ، انعام کی وجہ کیمیاء کی شاخ فمٹو کیمسٹری سے جڑے ان کے کارنامے تھے انھیں فیمٹو کیمسٹری کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پہلے مصری اور اور مسلمان باشندے تھے جنھیں نوبل انعام برائے کیمیاء ملا وہ آخری عمر کیلیفورننیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بطور پروفیسر کام کر رہے تھے۔ پروفیسر احمد زویل نے اپنی تمام زندگی امریکا میں صرف کی اور امریکی صدر براک اوباما کے مشیروں کی کونسل کے رکن بھی رہے۔ (وفات: 2 اگست 2016ء)
1956ء اقبال درانی ، بھارتی مصنف ، ڈائریکٹر، اداکار اور ہندی فلموں کے پروڈیوسر
1959ء احمد داؤد اوغلو ، ترک ماہر تعلیم، مصنف، پروفیسر، سیاستدان و سفارتکار ، (1 مئی2009ء تا 29 اگست2014ء) تُرک وزیرِ خارجہ اور 28 اگست2014ء سے 26ویں وزیراعظم ترکی
1974ء معمر رانا ، پاکستانی فلمی اداکار و ہدایتکار بمقام لاہور
1984ء وینا ملک ، اداکارہ و ماڈل بمقام
1954ء – رجب طیب اردوغان،
ایک ترک سیاست دان،استنبول کے سابق ناظم، جمہوریہ ترکی کے سابق وزیر اعظم اور بارہویں منتخب صدر ہیں۔ رجب28 اگست2014ء سے صدارت کے منصب پر فائز اور عدالت و ترقی پارٹی (AKP) کے سربراہ ہیں جو ترک پارلیمان میں اکثریت رکھتی ہے۔اکتوبر 2009ء میں دورۂ پاکستان کے موقع پر رجب اردوغان کو پاکستان کا اعلی ترین شہری اعزاز نشان پاکستان سے نوازا گیا۔علاوہ ازیں جامعہ سینٹ جانز، گرنے امریکن جامعہ، جامعہ سرائیوو، جامعہ فاتح، جامعہ مال تپہ، جامعہ استنبول اورجامعہ حلب کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے بھی نوازا گیا ہے۔ فروری 2004ء میں جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیول اور فروری 2009ء میں ایران کے دار الحکومت تہران نے رجب اردوغان کو اعزازی شہریت سے بھی نوازا۔سن 2008ء میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد رجب طیب ایردوان کے زیرقیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا، اور اس پر سخت احتجاج کیا۔ ترکی کا احتجاج یہیں نہیں رکا بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں ترک رجب طیب ایردوان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دوٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنویئر کیک جانب سے انہیں وقت نہ دینے پر رجب طیب ایردوان نے فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے ۔ اس واقعہ نے انہیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنادیا اور ترکی پہنچنے پر فرزندان ترکی نے اپنے ہیرو سرپرست کا نہایت شاندار استقبال کیا۔اس کے بعد 31 مئی بروز پیر 2010 ء کو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے آزادی بیڑے پر اسرائیل کے حملے اور حملے میں 9 ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد پھر ایک بار اردوگان عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھر اور عوام سے لے کر حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے ترکی اور ترک رہنما رجب طیب ایردوان کے فلسطینی مسئلے خاص طورپر غزہ پٹی کے حصار کے خاتمے کے لیے ٹھوس موقف کو سراہا اور متعدد عرب صحافیوں نے انہیں قائد منتظر قرار دیا۔اور وہ واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی پر ترکی کے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔15 جولائی 2016 کی شب فوج کے ایک دھڑے نے اچانک ہی ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا لیکن بغاوت کی اس سازش کو تر ک عوام نے سڑکوں پر نکل کر، ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنادیا اور یہ ثابت کیا کہ اصل حکمران وہ ہے جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرے
1917ء۔۔۔۔۔قدرت اللہ شہاب (1986ء-1917ء) پاکستان کے نامور اردو ادیب اور بیورو کریٹ تھے۔ ان کی پیدائش گلگت میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ریاست جموں و کشمیر اور موضع چمکور صاحب ضلع انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم -اے انگلش کیا۔ 1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ابتداء میں شہاب صاحب نے بہار اور اڑیسہ میں خدمات سرانجام دیں۔ 1943ء میں بنگال میں متعین ہو گئے۔آزادی کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل ہوئے۔ بعد ازاں پہلے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد، پھر اسکندر مرزا اور بعد ازاں صدر ایوب خان کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔ پاکستان میں جنرل یحیی خان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے سول سروس سے استعفی دے دیا اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے ۔ انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لیے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا ۔ ان کی اس خدمت کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہوگیا جو ان کی فلسطینی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم خدمت تھی ۔پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل انہی کی مساعی سے عمل میں آئی۔ صدر یحییٰ خان کے دور میں وہ ابتلاء کا شکار بھی ہوئے اور یہ عرصہ انہوں نے انگلستان کے نواحی علاقوں میں گزارا۔ شہاب صاحب ایک بہت عمدہ نثر نگار اور ادیب بھی تھے۔ ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور ان کی خود نوشتہ سوانح حیات “شہاب نامہ“ قابل ذکر ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں وفات پائی اور اسلام آباد کے سیکٹر H-8 کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
26 فروری کو وفات پانے والی چند مشہور شخصیات
1887ء آنندی گوپال جوشی ، پہلی ہندوستانی خاتون معالج ، جس دور میں خواتین کا تعلیم حاصل کرنا انتہائی مشکل سمجھا جاتا تھا، اس وقت طب کی تعلیم حاصل کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی شادی نو سال کی عمر میں ان سے قریب 20 سال بڑے گوپال راؤسے ہوئی تھی۔ جب 14 سال کی عمر میں وہ ماں بنیں اور ان کی پہلی اولاد کی موت 10 دنوں میں ہو گئی تو انہیں بہت بہت صدمہ ہوا۔ اپنی اولاد کو کھو دینے کے بعد انہوں نے یہ قسم کھائی کہ وہ ایک دن ڈاکٹر بنیں گی اور اس طرح کی المناک اموات کو روکنے کی کوشش کریں گی۔ ان کے شوہر گوپال راؤ نے بھی ان کا بھرپور تعاون کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ (پیدائش: 31 مارچ 1865ء)
1898ء فریڈرک ٹینی سن ، انگریزی شاعر و مصنف (پیدائش: 5 جون 1807ء)
1931ء اوتو والاخ ، نوبل انعام برائے کیمیاء (1910ء) یافتہ جرمن کیمسٹ و استاد جامعہ ، انعام کی وجہ انکی جانب سے کئی گئی نامیاتی کیمیاء اور کیمیائی صنعت میں تحقیق تھی اور ایک الیسائیکلک کمپاونڈ کی گئی اولین تحقیقات تھی۔ (پیدائش: 27 مارچ 1847ء)
1969ء لیوی اشکول ، اسرائیلی فوجی اور سیاستدان ، (26 جون 1963ء تا 5 جون 1967ء) اسرائیلی وزیرِ دفاع اور (21 جون 1963ء تا 26 فروری 1969ء) تیسرا وزیر اعظم اسرائیل (پیدائش: 25 اکتوبر 1895ء)
1985ء تجالنگ کوپمنس ، نوبل انعام برائے معاشیات (1975ء) یافتہ ڈچ نژاد امریکی ماہر معاشیات، ریاضی دان و استاد جامعہ ، انہیں یہ انعام روسی ماہرِ معاشیات لیونڈکانٹروچ کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا۔ (پیدائش: 28 اگست 1910ء)
1990ء سید محمد اکرم الہ آبادی ، بھارتی جاسوسی ناول نگار (1923ء)
1998ء تھیوڈور سکلٹز ، نوبل میموریل انعام برائے معاشیات (1979ء) یافتہ امریکی ماہر اقتصادیات و استاد جامعہ ، انھیں یہ انعام برطانوی ماہرِ اقتصادیات ڈبلیو آرتھر لیوسکو کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا۔ (پیدائش: 30 اپریل 1902ء)
2005ء جیف رسکن پیر ، امریکی موسیقار و کمپیوٹر سائنس دان، دنیا کے پہلے ایپل میکنٹوش کمپیوٹر کے خالق۔ (پیدائش: 9 مارچ 1943ء)
2009ء آغا محمد صادق بمعروف ڈاکٹر آغا سہیل ، پاکستان سے تعلق رکھنے و الے اردو کے ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد اور محقق (پیدائش: 6 جون 1933ء)
2010ء حسن عبد الحکیم ، نومسلم برطانوی سفیر، مصنف، مدرس، صوفی اسلام اور محقق اسلام (پیدائش: 1 جنوری 1921ء)
اردو کے نامور نقاد اور افسانہ، ناول نگار ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے 26 فروری 1978 کو ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کوئٹہ میں وفات پائی ۔ وہ کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ڈاکٹر محمد احسن فاروقی 22 نومبر 1913ء کو قیصر باغ لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ لکھنؤ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور انہوں نے ’’رومانوی شاعروں پر ملٹن کے اثرات‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی سے وابستہ رہے۔ وہ اردو کے صف اول کے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں، ان کی تنقیدی کتب میں اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، ناول کیا ہے، ادبی تخلیق اور ناول، میر انیس اور مرثیہ نگاری اور تاریخ انگریزی ادب کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کے ناولوں میں شام اودھ، آبلہ دل کا، سنگ گراں اور سنگم شامل ہیں جبکہ افسانوں کا مجموعہ رہ رسم آشنائی کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔۔
سائنسی موضوعات کے معروف مصنف، محقق اور ماہر تعلیم میجر آفتاب حسن نے 26 فروری 1993 کو کراچی میں وفات پائی اورکراچی ہی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ میجر آفتاب حسن بازید پور (بہار) میں 16 ستمبر 1909ء کو پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ملٹری اکیڈمی کاکول میں سائنس شعبے کے سربراہ رہے، بعدازاں وہ اردو سائنس کالج کراچی کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1960ء سے 1972ء تک وہ شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ جامعہ کراچی کے سربراہ رہے اس دوران انہوں نے اردو میں سائنسی اصطلاحات سازی اور سائنسی موضوعات پر کتب کی اشاعت کے سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ مقتدرہ قومی زبان کے پہلے معتمد تھے۔ بعدازاں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی وفات کے بعد وہ اس ادارے کے قائم مقام صدر نشین بھی رہے، 2024ء۔۔پنکج ادھاس ۔مشہور بھارتی غزل گائک